مودی وزارت عظمیٰ کے لیے بی جے پی کے متوقع امیدوار
8 جون 2013بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس دو روزہ اجلاس میں دیگر سیاسی امور کے ساتھ ساتھ اگلے برس کے پارلیمانی انتخابات کے لیے حکمت عملی پر غور ہوگا۔ سخت گیر مؤقف کے حامل نریندر مودی گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ چلے آرہے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ چرچا عام ہے کہ وہ ہی قوم پرست بی جے پی کے انتخابی پینل کے سربراہ قرار دیے جائیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بی جے پی میں کچھ سیاست دان تو اس بنیاد پر مودی کی مخالفت کرسکتے ہیں کہ وہ 2002ء کے مسلمان مخالف فسادات رکوانے میں ناکامی کے ذمہ دار ہیں، اور کچھ سینیئر سیاست دان خود وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
مودی کے سیاسی گرو سمجھے جانے والے سینیئر سیاست دان لال کرشن اڈوانی بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو مودی کے سیاسی رتبے میں بلندی کے خلاف ہیں۔ ذرائع کے مطابق 85 سالہ اڈوانی کے اس مؤقف کا سبب یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان ووٹرز بی جے پی سے بدظن ہوں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اڈوانی نے جمعے کے روز یہ کہہ کر کہ وہ ’بیماری‘ ہیں، ایک اہم پارٹی میٹنگ میں بھی حصہ نہیں لیا، اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وہ کسی اہم سالانہ بیٹھک کا حصہ نہیں بنے۔ اس کے باوجود بھارتی سیاسی پنڈتوں کو یقین ہے کہ اتوار کو، یعنی اس اجلاس کے آخری روز، وہ گووا میں ہوں گے اور یوں مودی کی نامزدگی کی علامتی تائید کردیں گے۔
بی جے پی کی ایک اور سینیئر رہنما اوما بھارتی بھی مودی کی نامزدگی کے بابت عدم دلچسپی کا اظہار کرچکی ہیں۔ وہ بھی بی جے پی کے قریب تین سو سیاست دانوں کے اس اجتماع سے غیر حاضر ہیں۔ بی جے پی کے سابق وزیر دفاع جسونت سنگھ بھی غیر حاضر ہیں۔
چند بھارتی اخبارات نے غیر حاضر رہنماوں کے حوالے سے ’نمونیا‘ سے شکایت کی سرخی لگائی ہے جو کسی بیماری نہیں بلکہ مودی کے لقب ’نمو‘ کی جانب اشارہ ہے۔ گووا آمد کے موقع پر 62 سالہ مودی خاصے پرجوش دکھائی دیے اور کیمروں کی جانب فتح کا نشان بناکر غیر حاضر رہنماوں کے حوالے سے اپنی بے پروائی ظاہر کرتے رہے۔
’دا ہندوستان ٹائمز‘ اخبار نے اپنے تبصرے بعنوان ’گووا : دہلی کی جانب مارچ میں مودی کا پہلا قدم‘ میں لکھا ہے کہ دائیں بازو کا یہ سیاست دان قدم جما رہا ہے۔ اتوار کو متوقع طور پر وزارت عظمیٰ کے لیے نامزدگی کے اعلان کے بعد مودی ملک بھر کا دورہ کریں گے اور انتخابی حکمت عملی کے حوالے سے اقدامات اٹھائیں گے۔ بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی کانگریس پارٹی کے خلاف مودی کی یہ مہم قومی سطح پر ان کی سیاسی صلاحیتوں کا ایک امتحان ہوگا تاہم گجرات میں دو ہزار سے زائد مسلمانوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے فسادات کے سائے ان کے ساتھ رہیں گے۔
(sks / shs (AFP