1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کا دورہ امریکہ اور انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش

21 جون 2023

امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے 70 سے زائد ارکان نے ایک مکتوب پر دستخط کیے ہیں، جس میں بائیڈن انتظامیہ سے مودی کے ساتھ بات چیت میں انسانی حقوق سے متعلق خدشات پر زور دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

G20 2022 Bali Biden Modi
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press via AP

امریکی صدر جو بائیڈن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک سرکاری عشائیہ کی میزبانی کرنے کی تیاری میں ہیں۔ مودی گزشتہ روز امریکہ کے تین روزہ سرکاری دورے پر نیویارک پہنچے تھے۔ ان کے اس دورے کے دوران بھارت اور امریکہ کے درمیان اہم دفاعی معاہدوں کی توقع ہے۔

وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ سے کن اہم سودوں کی توقع ہے؟

بھارت سے قربت کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے ان حلقوں کی تنقید کو بھی نظر انداز کر دیا، جو یہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے مودی کی دائیں بازو کی حکومت کے ماتحت بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔

انسانی حقوق: مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر احتجاج کے منصوبے

منگل کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ مودی کا دورہ امریکہ ایک ''گہری اور قریبی'' شراکت داری کی تصدیق کرتا ہے۔ کربی نے کہا کہ ''بھارت امریکہ کے لیے مستقبل کی دہائیوں میں ایک اہم اسٹریٹیجک پارٹنر ہو گا۔''

چین کے مقابلے پر بھارت، امریکہ دفاعی تعلقات میں اضافے پر زور

کربی نے تاہم بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور مودی حکومت کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرستی (ہندوتوا) کو اپنانے کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔

ایمیزون سے وال مارٹ تک: بھارت میں امریکی سرمایہ کاری، مودی کی چاندی

 ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے بھارت کی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے، ایک معاندانہ ماحول پیدا ہوا ہے۔ تاہم جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ پورے ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کے ساتھ اتحاد کر کے چین کے عروج کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔

ایک وقت تھا کہ امریکہ میں مودی کے داخلے پر پابندی عائد تھی اور کئی برس تک ویزا نہیں دیا گیا، تاہم اب حال یہ ہے کہ ان کے لیے سرخ قالینیں بچھائی جا رہی ہیںتصویر: Doug Mills/AFP

واشنگٹن میں سرگرم تقریبا سبھی خیالات کے سیاست دان بھی بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعاون کے حامی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں جماعتوں کے رہنماوں نے مودی کو کانگریس سے خطاب کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔

آبادی: بھارت اس سال چین کو پیچھے چھوڑ دے گا

البتہ کچھ ڈیموکریٹک قانون سازوں کو مذہبی اور شہری آزادیوں کے تعلق سے بھارت کے ریکارڈ پر گہری تشویش بھی لاحق ہے۔ یہی وجہ کہ منگل کے روز امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے 70 سے زائد ارکان نے ایک خط پر دستخط کیے، جس میں انہوں نے بائیڈن انتظامیہ سے مودی کے ساتھ بات چیت کے دوران انسانی حقوق کے خدشات پر گفتگو کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، امریکہ

اس مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ''سلسلہ وار آزاد اور معتبر رپورٹیں، بھارت میں سیاسی ماحول سکڑنے کے ساتھ ہی، مذہبی عدم برداشت میں اضافہ، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے، نیز پریس کی آزادیوں اور انٹرنیٹ تک رسائی پر بڑھتی ہوئی پابندیاں، پریشان کن علامات کی عکاسی کرتی ہیں۔''

کانگریس کی ایک نمائندہ راشدہ طلیب نے منگل کے روز اپنی ایک ٹویٹ پوسٹ میں کہا کہ وہ کانگریس میں ہونے والے مودی کے خطاب کا بائیکاٹ کریں گی۔ واضح رہے کہ راشدہ نے اس مذکورہ خط پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

 انہوں نے لکھا، ''یہ شرمناک ہے کہ مودی کو ہمارے ملک کے دارالحکومت میں ایک پلیٹ فارم دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ان کے جمہوریت مخالف اقدامات، مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور صحافیوں کو سنسر کرنے کی ان کی طویل تاریخ ناقابل قبول ہے۔''

جب اس طرح کے خدشات کے بارے میں جان کربی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے دوران بائیڈن ایسے اختلافی مسائل اکثر اٹھاتے ہیں اور انسانی حقوق کے مسائل انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کا ''بنیادی عنصر'' ہیں۔

کربی نے اس موقع پر اس موقف کو بھی مسترد کیا کہ چین کی وجہ سے بھارت پر اتنی توجہ دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان ''بڑھتے ہوئے تعلقات'' کے بارے میں ہے نہ کہ ''چین کو پیغام بھیجنے'' کے بارے میں ہے۔

 امریکہ میں انسانی حقوق کے بعض گروپ بائیڈن انتظامیہ کے اس رویے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ہتھیاروں کی فروخت جیسے شعبوں میں تعاون کو مزید آگے بڑھانے کے لیے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔

 ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا کہ امریکہ میں مودی کے داخلے پر پابندی تھی اور اب حال یہ ہے کہ ان کے لیے سرخ قالینیں بچھائی جا رہی ہیں۔

انڈین امریکن مسلم کونسل نے مودی کے دورے کے دوران امریکہ میں بعض مظاہروں کا بھی اہتمام کیا ہے۔

واضح رہے کہ سن 2005 میں امریکی محکمہ خارجہ نے ریاست گجرات میں ہونے والے 2002 کے مسلم کش فسادات کو روکنے میں ناکامی پر اس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ مودی کو امریکہ کا ویزا دینے سے منع کر دیا تھا۔امریکہ کی یہ پابندی سن 2014 میں اس وقت تک برقرار رہی جب تک مودی بھارت کے وزیر اعظم نہیں بنے تھے۔

 تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ امریکہ چین کو قابو میں رکھنے کی کوششوں میں اتحادیوں کی تلاش میں ہے اور ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اقتدار پر گرفت کافی مضبوط ہے، اس لیے اس نے بھارت سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے، انسانی اور مذہبی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے ریکارڈ کو بھی بڑی حد تک نظر انداز کردیا ہے۔

 ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

بھارت روس پر لگی پابندیوں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں سے ایک

01:08

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں