بھارت اور چین کے درمیان ثالثی کی اپنی اپیل کا اعادہ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اس مسئلے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی ہے لیکن بھارت نے ایسی کسی بات چیت کی تردید کی ہے۔
اشتہار
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جاری کشیدگی پر وزیر اعظم مودی کا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔ اس معاملے پر بھارت خوش نہیں ہے اور شاید چین بھی خوش نہیں ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات 28 مئی کو وائٹ ہاوس میں میڈیا سے بات چیت کے دوران ایک بھارتی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان ’بڑے ٹکراو‘ کی صورت حال بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ”میں یہ (ثالثی) کر سکتا ہوں۔ اگر انہیں لگتا ہے کہ اس سے مدد ملے گی تو میں ایسا کرسکتا ہوں۔“
امریکی صدر نے کہا ”بھارت میں لوگ مجھے پسند کرتے ہیں۔ میرے خیال میں میرے اپنے ملک میں میڈیا مجھے جتنا پسند کرتا ہے اس سے بہت زیادہ مجھے بھارت میں پسند کیا جاتا ہے اور میں مودی کو پسند کرتا ہوں۔ میں آپ کے وزیر اعظم کو بہت پسند کرتا ہوں وہ ایک عظیم اور اچھے انسان ہیں۔“
صدر ٹرمپ نے مزید کہا ”بھارت اور چین کے درمیان بڑے ٹکراو کی حالت ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس ایک ایک ارب چالیس چالیس کروڑ کی آبادی ہے۔ دونوں کے پاس کافی مضبوط افواج ہیں۔ بھارت خوش نہیں ہے اور شاید چین بھی خوش نہیں ہے۔ میں نے وزیر اعظم مودی سے بات کی تھی، چین کے ساتھ جو کچھ بھی چل رہا ہے اس سلسلے میں ان کا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔“
بھارت نے تاہم دونوں رہنماوں کے درمیان حالیہ دنوں میں کسی طرح کے رابطہ کی تردید کی ہے۔ ایک اعلی سرکاری افسر نے اس حوالے سے کہا”حالیہ دنوں میں وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ دونوں رہنماوں کے مابین آخری مرتبہ بات چیت 4 اپریل 2020 کو ہوئی تھی جب انہوں نے ہائیڈروکسی کلوروکوئین کے موضوع پر بات کی تھی۔“
صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس جولائی میں بھی کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کا رول ادا کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو یہ تجویز دی ہے۔ تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے اس طرح کی کوئی تجویز موصول ہونے سے انکار کیا تھا۔
خیال رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے بد ھ کے روز اچانک ثالثی کی پیش کش کردی تھی۔ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا ”ہم بھارت اور چین دونوں کو آگاہ کرچکے ہیں کہ موجود سرحدی تنازعہ پر امریکا مصالحت یا ثالثی کے لیے خواہاں ہے اور اہلیت رکھتا ہے اور تیار ہے۔“ بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع پر امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش یہ کہتے ہوئے مسترد کردی ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ ’مسئلے کے حل‘ کے لیے کوشاں ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو سے میڈیا بریفنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا’’ہم اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے چین کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں“۔ انہوں نے مزید کہا ”ہمارے فوجیوں نے انتہائی ذمہ دارانہ انداز میں بارڈر مینجمنٹ کا امور سنبھال رکھا ہے اور بھارت، چین کے ساتھ سرحدی علاقوں میں امن و سکون کی بحالی کے مقصد کے لیے پرعزم ہے، اس کے ساتھ ہی ہم بھارت کی خود مختاری اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے اپنے عزم پر قائم ہیں۔“
امریکی صدر ٹرمپ کی تجویز پر چین کی طرف سے فی الحال کوئی سرکاری بیان نہیں آیا ہے لیکن سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ میں شائع ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کو صدر ٹرمپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے”موجودہ تنازعہ کو بھارت اور چین باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دونوں کو امریکا سے ہوشیار رہنا چاہیے جو کہ خطے میں امن اور خیر سگالی کو تباہ کرنے کا موقع تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے۔“
یہ امر قابل ذکرہے کہ بھارت اورچین کے درمیان لداخ اور شمالی سکم میں حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پرپچھلے کئی ہفتوں سے کشیدگی ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے چینی افواج کو حکم دیا تھا کہ وہ جنگ کے لیے مضبوط تیاری شروع کردیں۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم مودی نے بھی وزیر دفاع، قومی سلامتی کے مشیر، چیف آف ڈیفنس اسٹاف اور تینوں افواج کے سربراہوں کے ساتھ اس صورت حال کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔