مودی حکومت سکھ علیحدگی پسندوں سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں اسے چھوٹی مذہبی اقلیتوں کی حمایت حاصل نہیں تاہم حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی وجوہات اور سیاسی تحفظات کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے۔
اشتہار
شمالی بھارت میں سکھ علیحدگی پسندوں کی تحریک کئی عشروں قبل کچل دی گئی تھی۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں یہ باغی ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بالخصوص امریکہ اور کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کے قتل کی سازشوں کی وجہ سے یہ موضوع عالمی میڈٰیا کی توجہ کا باعث بھی بنا ہے۔
شمالی امریکہ میں سکھ علیحدگی پسندوں کے قتل کی سازش میں بھارتی عہدیداروں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا نے بھی اس حوالے سے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم بھارتی حکومت ایسے تمام تر دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیتی ہے۔
نئی دہلی حکومت نے جون میں کینیڈا میں ہوئے ایک سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے سے بھی انکار کیا تھا۔ بھارتی حکومت کے مطابق وہ سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے اور یہ کہ وہ تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہے۔
بھارتی سکیورٹی اہلکار البتہ یہ کہہ چکے ہیں کہ منظم جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور اس میں اگر سکھوں کے ملوث ہونے کی بھی اطلاع ہو گی تو ان کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا۔ تاہم سکھ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی ان کی قیادت کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
11 تصاویر1 | 11
بھارت کی ایک اعشاریہ چار بلین کی مجموعی آبادی میں سکھوں کا تناسب دو فیصد سے بھی کم ہے۔ تاہم وہ بھارتی پنجاب میں اپنا وطن 'خالصتان‘ بنانا چاہتے ہیں۔ اسّی اور نوے کی دہائی میں اسی سکھ تحریک کے دوران ہزاروں افراد مارے گئے تھے جبکہ آخر کار نئی دہلی نے بھارت میں اس تحریک کو کچل دیا تھا۔
ایک اعلیٰ بھارتی عہدیدار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ موجودہ بھارت میں خالصتان تحریک کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انہوں نے البتہ کہا کہ غیر ممالک میں آباد کچھ نمایاں سکھ علیحدگی پسند رہنما منشیات اور اسلحے کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور ان کے روابط بھارت میں بھی ہیں۔
اشتہار
کیا بھارتی حکومت کے پاس شواہد ہیں؟
بھارتی حکومت نے اپنے ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت عوامی سطح پر ظاہر نہیں کیا ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے شواہد کئی ممالک کی سکیورٹی ایجسنیوں کے ساتھ شیئر کر چکی ہے۔
بھارتی پنجاب میں سکھوں کے ایک گروپ سے وابستہ کنورپال سنگھ نے بھارتی حکومت کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل اس طرح کے الزامات سے بھارتی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ سکھ علیحدگی پسندوں کی عالمی ساکھ خراب کرے۔
مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ دراصل سکھوں کے معاملے کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے یہ قوم پرست سیاسی جماعت آئندہ الیکشن میں عوامی حمایت بٹورنا چاہتی ہے۔ بھارت میں آئندہ سال پارلیمانی انتخابات ہونا طے ہیں۔ اٹھائیس سیاسی پارٹیوں کا اتحاد اس الیکشن میں مودی کے خلاف کھڑا ہو گا۔ مرکزی اپوزیشن پارٹی کانگریس اس سیاسی اتحاد کی قیادت کر رہی ہے۔