مودی کی صدر شی سے ملاقات سے قبل چین کی پاکستان کو یقین دہانی
23 اپریل 2018
بھارتی وزیر اعظم مودی کے دورہ چین اور ان کی اسی ہفتے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ایک غیر رسمی ملاقات سے قبل بیجنگ نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ پاک چین دوستی ہمیشہ کی طرح مستحکم ہے، جسے ’کبھی زنگ نہیں لگے گا‘۔
اشتہار
چینی دارالحکومت بیجنگ سے پیر تئیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اسی ہفتے جو ملاقات چین میں ہو گی، وہ ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے بے چینی کا باعث بن سکتی ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی دو ایمٹی طاقتیں بھی ہیں اور چین کے ہمسایہ ممالک بھی، لیکن آپس میں ان دونوں روایتی حریف ممالک کے مابین سات عشروں سے بھی زائد عرصہ قبل ان کی آزادی سے لے کر اب تک ایسی رقابت پائی جاتی ہے، جس دوران حالیہ مہینوں میں ان کے مابین کشیدگی بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے متنازعہ اور منقسم خطے میں کنٹرول لائن کے آر پار پچھلے چند ماہ کے دوران جتنی مرتبہ فائر بندی کی ہلاکت خیز خلاف ورزیاں دیکھنے میں آ چکی ہیں، وہ بھی چین کی اس غیر اعلانیہ تشویش کا سبب ہو سکتی ہیں کہ مودی کا دورہ چین اسلام آباد کے لیے نفسیاتی بے چینی کی وجہ بن سکتا ہے۔
اس تناظر میں چین نے مودی کی صدر شی سے ملاقات سے پہلے ہی پاکستان کو یہ یقین دہانی کرانا مناسب سمجھا کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے باہمی تعلقات ہمیشہ کی طرح انتہائی مستحکم ہیں اور ان روابط کو ’کبھی زنگ نہیں لگ سکتا‘۔
پاکستان اور چین ایک دوسرے کو اپنا ’ہر قسم کے حالات میں اچھا دوست‘ قرار دیتے ہیں اور ان کے روایتی طور پر بہت قریبی دوطرفہ تعلقات بھارت کے لیے بھی شک و شبے کی وجہ رہے ہیں، جو پاکستان کو اپنا دیرینہ دشمن سمجھتا ہے۔
چین اور بھارت کے باہمی تعلقات میں ماضی میں چینی بھارتی سرحد پر تنازعات اور بھارت میں مقیم تبتی باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لاما کی وجہ سے بھی کئی بار کشیدگی دیکھنے میں آ چکی ہے۔ لیکن نریندر مودی ان تعلقات میں دوبارہ بہتری کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں اور آئندہ جمعے اور ہفتے کے روز چین میں صدر شی جن پنگ کے ساتھ مودی کی غیر رسمی سربراہی ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو گی۔
دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں کہاں استعمال کی جاتی ہیں؟
کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور بر اعظم امریکا میں قریب چار لاکھ، جب کہ ایشیا میں چار لاکھ چھتیس ہزار گاڑیاں رجسٹر کی گئیں۔ کن ممالک میں گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۔ امریکا
دنیا میں سب سے زیادہ شہریوں کے پاس گاڑیاں امریکا میں ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے ایک ہزار امریکی شہریوں میں سے 821 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. C. Hong
۲۔ نیوزی لینڈ
گاڑیوں کی تعداد کے اعتبار سے اس فہرست میں دوسرا نمبر نیوزی لینڈ کا ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 819 گاڑیاں پائی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
۳۔ آئس لینڈ
تین ملین نفوس پر مشتمل یورپ کا جزیرہ ملک آئس لینڈ گاڑیوں کے تناسب کے اعتبار سے یہ یورپ میں پہلے اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں فی ہزار شہری 796 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۴۔ مالٹا
چوتھے نمبر پر بھی ایک چھوٹا سا یورپی ملک مالٹا ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری 775 گاڑیاں بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Schulze
۵۔ لکسمبرگ
یورپی ملک لکسمبرگ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 745 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
۶۔ آسٹریلیا
چھٹے نمبر آسٹریلیا کا ہے جہاں ایک ہزار شہریوں میں سے 718 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: M. Dadswell/Getty Images
۷۔ برونائی دار السلام
چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل اس ایشیائی ملک میں اکہتر فیصد (یعنی 711 گاڑیاں فی یک ہزار شہری) عوام کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں وہ اس اعتبار سے مسلم اکثریتی ممالک اور ایشیا میں پہلے جب کہ دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Rahman
۸۔ اٹلی
اٹلی بھی اس عالمی درجہ بندی میں ٹاپ ٹین ممالک میں آٹھویں نمبر ہے جہاں فی ایک ہزار شہری 706 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
۹۔ کینیڈا
کینیڈا میں ایک ہزار افراد میں سے 646 کے پاس گاڑیاں ہیں اور وہ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۱۰۔ پولینڈ
پولینڈ میں فی ایک ہزار نفوس 628 گاڑیاں پائی جاتی ہیں اور یوں وہ یورپی یونین میں چوتھے اور عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/J. Arriens
جاپان
جاپانی گاڑیاں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں اور اس ملک کے اپنے ایک ہزار شہریوں میں سے 609 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں عالمی سطح پر جاپان تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Tsuno
جرمنی
جرمنی بھی گاڑیاں بنانے والے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن فی ایک ہزار شہری 593 گاڑیوں کے ساتھ اس فہرست میں جرمنی سترہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
روس
روس ہتھیاروں کی دوڑ میں تو اب دوبارہ نمایاں ہو رہا ہے لیکن اس فہرست میں وہ انچاسویں نمبر پر ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری گاڑیوں کی تعداد 358 بنتی ہے۔
اقتصادی طور پر تیزی سے عالمی طاقت بنتے ہوئے اس ملک میں ایک ہزار نفوس میں سے 118 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ چین اس اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں 89ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/J. Haixin
بھارت
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں فی ایک ہزار شہری 22 گاڑیاں ہیں اور عالمی درجہ بندی میں بھارت 122ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں ایک سو پچیسویں نمبر پر ہے اور کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی ایک ہزار شہری 17 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb/P. Grimm
16 تصاویر1 | 16
اس پس منظر میں پاکستان کے ممکنہ خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بیجنگ میں پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ساتھ ایک ملاقات میں چین کے ’اسٹیٹ قونصلر‘ کہلانے والے اعلیٰ ترین سفارت کار وانگ ژی نے کہا، ’’چین آئندہ بھی پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔‘‘
وانگ ژی نے پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں انہیں بتایا، ’’ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ مل کر اس تاریخی مشن کی تکمیل کے لیے کام کرتے رہیں گے، جس کا مقصد قومی احیاء اور ملکی خوشحالی اور ترقی کی منزل کا حصول ہے۔‘‘
چین اور بھارت کا تقابلی جائزہ
ماضی میں بھارت اور چین کے مابین تواتر سے کئی معاملات میں اختلاف رائے رہا ہے۔ ان ممالک کے درمیان ایک خلیج حائل ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ بھارت میں چین کی صلاحیتیوں کے بارے میں کم معلومات بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/A.Wong
رقبہ
بھارت: 32,87,469 مربع کلو میٹر ، چین: 95,96,960 مربع کلو میٹر
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Chang
ساحلی علاقہ
بھارت: 7,516 کلو میٹر ، چین: 14,500 کلو میٹر
تصویر: picture alliance/dpa/Blanches/Imaginechina
آبادی
بھارت: 1.32 بلین ، چین: 1.37 بلین
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Jianhua
حکومتی نظام
بھارت: جمہوری پارلیمانی نظام ، چین: یک جماعتی غیر جمہوری نظام
تصویر: picture alliance/dpa
ملکی خام پیداوار (جی ڈی پی)
بھارت: 2,256 بلین ڈالر، چین: 11,218 بلین ڈالر
تصویر: Reuters/J. Dey
فی کس جی ڈی پی
بھارت: 6,616 ڈالر، چین : 15,399 ڈالر
تصویر: DW/Prabhakar
فی کس آمدنی
بھارت: 1,743 ڈالر، چین: 8806 ڈالر
تصویر: picture-alliance/ZB
متوقع اوسط عمر
بھارت: 69.09 برس ، چین: 75.7 برس
تصویر: Reuters/A. Abidi
شرح خواندگی
بھارت: 74.04 فیصد ، چین: 91.6 فیصد
تصویر: Imago/View Stock
افواج
بھارت: 12,00,000 سپاہی ، چین: 23,00,000 سپاہی
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Wong
برآمدات
بھارت: 423 بلین ڈالر، چین: 2,560 بلین ڈالر
تصویر: Getty Images/AFP
درآمدات
بھارت: 516 بلین ڈالر، چین: 2,148 بلین ڈالر
تصویر: Getty Images/AFP/Str
بندرگاہیں
بھارت: 12 بڑی اور 200 چھوٹی ، چین: 130 بڑی اور 2000 درمیانے سائز کی بندرگاہیں
تصویر: Imago
ائیرپورٹ
بھارت: 126 ، چین : 220 سے زائد
تصویر: Flightradar24.com
ریلوے نیٹ ورک
بھارت: 119630 کلو میٹر، چین: 121000 کلو میٹر
تصویر: Reuters
ملک چھوڑنے والے شہری ( فی 10 ہزار)
بھارت: 4 ، چین: 3
تصویر: Getty Images/AFP/O. Scarff
حکومتی قرضہ
بھارت: 70 فیصد، چین 46 فیصد
تصویر: Reuters/D. Balibouse
بے روزگاری کی شرح
بھارت: 9.8 فیصد ، چین: 10.5 فیصد
تصویر: Reuters/C. McNaughton
تیز رفتار انٹرنیٹ کی رسائی (فی صد شہری)
بھارت: 1.3، چین: 18.6
تصویر: DW/M. Krishnan
افریقہ میں سرمایہ کاری
بھارت: 16.9 بلین ڈالر، چین: 34.7 بلین ڈالر
تصویر: Imago/Xinhua
20 تصاویر1 | 20
چینی اسٹیٹ قونصلر نے یہ بیان خواجہ آصف کے ساتھ مل کر بیجنگ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ وانگ ژی نے مزید کہا، ’’اس طرح پاکستان اور چین کی آہنی دوستی کو کبھی زنگ نہیں لگے گا اور وہ آہنی سے فولادی بن جائے گی۔‘‘
روئٹرز کے مطابق پاکستان کے بارے میں چین کے اس تازہ ترین موقف کی خاص بات یہ ہے کہ صحافیوں کے ساتھ جس بات چیت میں اس کا اظہار کیا گیا، اس میں بھارتی وزیر اعظم مودی اور چینی صدر شی کی آئندہ دنوں میں ہونے والی ملاقات کا کوئی ذکر سننے میں نہ آیا۔
م م / ع ا / روئٹرز
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔