1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

'مودی کی قیادت میں اشتعال انگیزی کے جواب کا امکان زیادہ ہے'

9 مارچ 2022

امریکی خفیہ اداروں کے مطابق جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے درمیان  کشیدگی کے واقعات کم ہوں، تب بھی دونوں کے مابین بحران کافی حد تک تشویش کا باعث ہے۔

Indien | Tag der Republik | Premierminister Narendra Modi
تصویر: Adnan Abidi/REUTERS

امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی نے ایوان نمائندگان کو بتایا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والے بھارت کی جانب سے اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ پاکستان کی جانب کسی بھی حقیقی یا خیالی اشتعال انگیزی کا فوجی طاقت سے جواب دیا جائے۔

عسکری خطرات سے متعلق امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی کی سالانہ رپورٹ کو آفس آف ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس نے جاری کیا ہے۔ اس کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر جس نوعیت  کی کشیدگی  پائی جاتی ہے وہ کسی بھی وقت دونوں میں لڑائی کا بھی باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان اور بھارت سے متعلق کیا کہا گيا؟

امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق، دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان چاہے کشیدگی کے واقعات کم ہو رہے ہوں تاہم اس کے باوجود، "بھارت اور پاکستان کے درمیان بحران خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔"

اس رپورٹ کے مطابق "بھارت مخالف عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کرنے کی پاکستان کی ایک طویل تاریخ رہی ہے اور اب بھارت کی جانب سے ماضی کے مقابلے میں، وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے ہونے والی اشتعال انگیزیوں کا فوجی طاقت سے جواب دیں۔"

تصویر: Mukhtar Khan/AP Photo/picture alliance

اس کے مطابق، "دونوں ہی فریقوں کے ذہن میں کشیدگی میں اضافے کا خدشہ تنازعے کو مزید گہرا کرتا ہے اور اسی لیے کشمیر میں پر تشدد بدامنی کا کوئی واقعہ یا پھر بھارت میں عسکریت پسندوں کی جانب سے کوئی ایک حملہ ممکنہ فلیش پوائنٹ بن کر ابھر سکتا ہے۔"

چین سے متعلق تنبیہ

امریکی انٹیلیجنس نے خطرے سے متعلق اپنے اندازے میں بھارت اور چین سے متعلق بھی آگاہ کیا ہے اور کہا ہے کہ فریقین کے درمیان فوجی پوزیشن میں توسیع سے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان مسلح تصادم کا خطرہ بڑھ گيا ہے۔

اس کے مطابق متنازع سرحدی علاقوں میں فوجی پوزیشن میں توسیع سے اگر مسلح تصادم ہوتا ہے تو اس سے، "امریکی افراد اور مفادات کو بھی براہ راست خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اسی لیے حکام  امریکہ سے مداخلت کا بھی مطالبہ کر سکتے ہے۔"

اس رپورٹ کے مطابق 2020 میں دونوں کی فوج میں مہلک تصادم کے تناظر میں نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کشیدہ رہیں گے اور عشروں بعد یہ اتنے زیادہ سنگین اور اونچی سطح پر ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا، "پچھلے تعطل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر نچلی سطح کی یہ کشمکش مسلسل تیزی سے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔"

سن 2020 میں مشرقی لداخ کی پینگانگ جھیل کے آس پاس دونوں کے درمیان پرتشدد تصادم ہوا تھا اور تبھی سے مشرقی لداخ کی سرحد پر بھارت اور چینی فوجوں کے درمیان تعطل برقرار ہے۔ اسی وجہ سے فریقین نے آہستہ آہستہ وہاں فوجیں اور بھاری ہتھیار تعینات کرنا شروع کیا جہاں اب دسیوں ہزار فوجی آمنے سامنے ہیں۔

غزوہ ہند، جناح، پاکستان یا ترقی: اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کا موضوع آخر ہے کیا؟

04:37

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں