مودی کی ممکنہ فتح: کیا پاک بھارت تعلقات بہتر ہوں گے؟
عبدالستار، اسلام آباد
20 مئی 2019
بھارت کے بازار حصص میں مودی کی ممکنہ فتحز کی خبر پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن پاکستان میں مبصرین اس کے ممکنہ اثرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے خیال میں مودی کی کامیابی سے پاک بھارت تعلقات پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
اشتہار
واضح رہے کہ بھارت کے عام انتخابات کے نتائج جمعرات کو آنا شروع ہو جائیں گے۔ کئی سروے اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ بی جے پی اور اس کے اتحادی تین سو کے قریب نشستیں حاصل کر لیں گے۔ کچھ مبصرین کا یہ دعویٰ ہے کہ بی جے پی اور اس کے اتحادی ساڑھے تین سو نشتیں بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے کچھ ہفتوں پہلے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اگر مودی انتخابات جیت جاتے ہیں تو دونوں ممالک میں ممکنہ طور پر تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔
تاہم پاکستان میں مبصرین کا خیال ہے کہ اس ممکنہ فتح کے پاک بھارت تعلقات پر بہتر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کا خیال ہے کہ مودی ایک انتہا پسندانہ ایجنڈے پر انتخابات میں گئے تھے، جس کا مرکزی نقطہ مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی تھا،’’تو ایسی صورت میں وہ پاکستان سے تعلقات بہتر کیسے کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان خیلج کو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ افغانستان کا مسئلہ لے کر امریکا کے کان بھریں گے اور پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ روس پر بھی دباؤ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان سے بڑھتی ہوئی قربت کو کم کرے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کام کرنے کی ایک اور وجہ پاک چین تعلقات ہیں۔ ’’مودی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے سخت مخالف ہیں۔ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ مل کر بھارت کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ تو ایسی صورت میں وہ پاکستان کے ساتھ کیونکر اچھے تعلقات قائم کریں گے۔‘‘
عام تاثر یہ ہے کہ سخت گیر سیاسی خیالات رکھنے والے رہنما امن کے لیے زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔ جس طرح ریگن نے سرد جنگ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ سخت گیر انور السادات نے کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ کیا جب کہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا پختہ ارادہ رکھنے والے یاسر عرفات نے اوسلو کا معاہد ہ کیا۔ پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں بھارتی وزیرِ اعظم واجپائی نے اعلانِ لاہور کیا۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ مودی واجپائی نہیں۔ اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ سخت گیر سیاسی نظریات کے حامل ہمیشہ ہی مذاکرات کریں،’’یہ صیح ہے کہ کچھ سخت گیر سیاست دانوں نے دنیا کے کئی ممالک میں امن معاہدے کیے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر سخت گیر رہنما اس طرح کے معاہدے کرے۔ مودی نے اپنی پوری انتخابی مہم پاکستان اور مسلم دشمنی پر چلائی ہے۔ تو میرے خیال میں ان کے جیتنے سےتعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔ ان میں ایسے ہی جمود رہے گا۔‘‘
بھارت میں ’بڑے نوٹ‘ بند، عوام پریشان
بھارتی حکومت کی جانب سے پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں کی بندش کے اعلان کے بعد شہری پرانے نوٹ تبدیل کروانے کی الجھن کا شکار ہیں اور بینکوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں دکھائی دے رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
بھارتی بینکوں کے کاؤنٹروں پر اژدھام
پرانے نوٹوں کی بندش اور تبدیلی کے لیے دستیاب قلیل وقت کے سبب مختلف بینکوں کے سامنے لوگوں کی بہت بڑی تعداد جمع دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
بینکوں کے باہر لمبی قطاریں
خواتین اور بزرگ شہریوں سمیت عام لوگ لمبی لمبی قطاروں میں پرانے کرنسی نوٹ تبدیل کرانے کے لیے بینکوں کے باہر کھڑے نظر آتے ہیں۔ بعض شہری انتہائی ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے بھی اپنے پاس پیسے نہ ہونے کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Prakash
ادائیگی شناخت کے بعد
حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹ تبدیل کروانے کے لیے ہر شخص کی شناخت کے بعد ہی اسے نئے کرنسی نوٹ دیے جائیں گے۔ حکومت اس طریقے سے کالے دھن کا خاتمہ چاہتی ہے، تاہم عام شہریوں کی پریشانی کے پیش نظر اس حکومتی اقدام پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Prakash
بینکوں کے باہر شب بسری
بعض بینکوں کے باہر جلد اپنی باری کے لیے لوگ رات ہی کو آن کر بسیرا کر لیتے ہیں، تاکہ اگلی صبح انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
باری آتی ہی نہیں
کئی بینکوں کے باہر شہریوں کی قطاریں اتنی طویل ہیں کہ لوگ اپنی باری کے انتظار میں گھنٹوں اور بعض صورتوں میں تو پورا پورا دن کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Prakash
5 تصاویر1 | 5
جموری ممالک میں اگر سیاسی جماعتوں کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہو تو وہ فیصلے آسانی سے کر لیتی ہیں۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر مودی کو دو تہائی اکثریت ملتی ہے تو ممکن ہے کہ وہ امن کے لیے قدم اٹھائیں۔ معروف تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے سابق ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیا الدین نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بھارت میں یہ انتخابات گزشتہ عام انتخابات سے مختلف تھے۔ اس وقت مودی ایک چیلنجرتھے لیکن اب وہ پانچ برسوں سے حکومت کر رہے ہیں۔ ان کی ہندوتوا کی پالیسی بھی برہمن کو خوش کر سکتی ہے لیکن نچلی ذات کے ہندؤں کے لیے اس میں کو ئی کشش نہیں ہے۔ ممتا بینر جی اور کانگریس بھی اب کی بار بہتر پوزیشن میں ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ کانگریس پہلے سے بہت زیادہ نشتیں حاصل کر سکتی ہے۔ تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی شاید بہت زیادہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں۔ تو کم اکثریت کے ساتھ وہ مزید سخت گیر ہو جائیں گے لیکن اگر انہیں دو تہائی اکثریت ملتی ہے تو پھر وہ شاید مذاکرات کی طرف قدم بڑھائیں۔‘‘
مودی کی جیت کی خوشیاں
بھارتی انتخابات کئی معنوں میں تاریخی رہے۔ ان میں ریکارڈ ووٹنگ ہوئی اور جو نتائج سامنے آئے ہیں انہوں نے بھی کئی برسوں کے ریکارڈ توڑے۔ گزشتہ 30 برسوں میں پہلی بار کسی ایک جماعت کو اس قدر واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters
مودی کا بھارت
بھارت بھر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی جیت کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق 543 نشستوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔
تصویر: Reuters
دہلی میں آمد
جیت کے بعد ہفتے کے روز نریندر مودی کا نئی دہلی میں پرجوش استقبال کیا گیا ہے۔ اس جیت کی ریلی کے دوران پارٹی کے حامیوں سے سڑکیں بھری ہوئی تھیں۔
تصویر: Reuters
جیت کے لڈو
ممبئی میں بی جے پی کے مسلم کارکن مٹھائی بانٹ کر پارٹی کی جیت کا جشن مناتے ہوئے۔ مبصرین کی رائے میں گجرات کے فسادات کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مودی کے مخالف تھی۔
تصویر: UNI
جشن اور پٹاخے
بی جے پی کی تاریخی جیت کا جشن مناتے ہوئے کارکنوں نے آتش بازی کا بھی مظاہرہ کیا۔ چنئی میں لی گئی اس تصویر میں کارکن پٹاخوں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے۔
تصویر: UNI
بنارس میں جیت
بنارس میں ڈھول بجا تے ہوئے بی جے پی کی جیت کے جشن میں ڈوبے کارکن۔ بی جے پی کے رہنما نریندر مودی یہاں سے بھی الیکشن جیتے ہیں۔ مودی کی جماعت نے ریاست اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کو نہ صرف ہرایا ہےبلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہاں سے تو اس پارٹی کا تقریباﹰ خاتمہ ہی ہو گیا ہے۔
تصویر: UNI
صدر دفتر میں گانے
نئی دہلی میں بی جے پی کے صدر دفتر کے باہر ناچتے اور گاتے ہوئے کارکن۔ پارٹی کے صدر دفتر میں جمعہ کی صبح سے ہی کارکنوں نے جشن منانے کا آغاز کر دیا تھا۔
تصویر: UNI
بِہار میں بَہار
ریاست بِہار کے دارالحکومت پٹنہ میں بھی بی جے پی کے کارکنوں نے ’مودی بَہار‘ کا جشن منایا۔ ریاست بِہار میں بھی این ڈی اے نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تصویر: UNI
جیت کی ہولی
ویسے تو بھارت میں ہولی ایک مذہبی تہوار ہے لیکن اتر پردیش کے درالحکومت لکھنوء میں لوگوں نے جیت کی ہولی منائی۔ قوم پرست نریندر مودی کو ہندو مذہبی حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
تصویر: UNI
ملک بھر میں مودی لہر
مودی پوری طرح حکومتی اتحاد (یو پی اے) کو مات دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کو ریکارڈ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں اور انہیں حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ گوہاٹی میں پارٹی کے کارکن نتائج کے بعد جشن مناتے ہوئے۔
تصویر: Reuters
اسٹاک مارکیٹ میں دھوم
بھارتی اسٹاک مارکیٹ میں جمعہ کو تیز ی کے ساتھ اضافہ نوٹ کیا گیا۔ لوگوں کو امید ہے کہ نئی حکومت معیشت کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگی۔ مودی کی جیت کا اثر روپے کی قدر پر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ جمعہ کو بھارتی روپے کی قدر مستحکم رہی۔