مودی کے خطاب میں بلوچستان کا ذکر، ’سب کچھ سوچا سمجھا تھا‘
26 اگست 2016اس موضوع پر مشترکہ طور پر بھارتی دارالحکومت نئی دہلی اور پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ چھبیس اگست کو نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ایک تفصیلی تجزیے میں لکھا ہے کہ پندرہ اگست بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر ملکی وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے جو خطاب کرنا تھا، اس کی تیاریاں کرتے ہوئے مودی کے کئی اعلیٰ مشیروں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ وزیر اعظم اپنی تقریر میں حریف ہمسایہ ملک پاکستان کے بدامنی کے شکار صوبہ بلوچستان کا ذکر کرنے سے باز رہیں۔
اس موقع پر مودی کے متعدد مشیروں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی ہفتوں سے جاری خونریزی اور عوامی مظاہروں کی موجودہ لہر کے باعث دونوں جنوبی ایشیائی ریاستوں کے مابین پہلے ہی کشمیر کے تنازعے کی وجہ سے پائی جانے والی کشیدگی کہیں زیادہ ہو چکی ہے اور پھر بھارتی یوم آزادی پر سربراہ حکومت کے قوم سے خطاب جیسے بہت اہم موقع پر پاکستانی صوبہ بلوچستان کا حوالہ دیا جانا بھی بہت غیر معمولی بات ہو گی۔
اس سلسلے میں اگست کے اوائل میں ہونے والے ایک بہت اہم اجلاس میں شریک ایک اعلیٰ بھارتی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ اس میٹنگ میں موجود کئی قدرے مشتعل سیاستدان اور خود نریندر مودی بھی اس بات پر ناراض تھے کہ ان کے بقول پاکستان ’کشمیر میں حالات خراب کر رہا‘ تھا اور اسی لیے انہوں نے اس بات کی حمایت کی کہ مودی کو اپنے خطاب میں بلوچستان کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ اس تنبیہ کے باوجود کہ ایسی کسی تقریر میں بلوچستان کا ذکر کرنا جانتے بوجھتے کیا جانے والا ایک پرخطر فیصلہ ہو گا، مودی نے پھر بھی یہ ذکر اس لیے کیا کہ وہ بلوچستان کی صورت حال کا ذکر کر کے پاکستان کے بارے میں اپنے کھلے اور سخت موقف کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح اس نپے تلے بھارتی اقدام کا وہی نتیجہ نکلا، جس کا خدشہ تھا۔
پاکستان نے مودی کی تقریر میں بلوچستان کے ذکر پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ مودی کا بیان اس امر کا ثبوت ہے کہ نئی دہلی پاکستان کے معدنی وسائل سے مالا مال اس صوبے میں عشروں سے جاری بلوچ علیحدگی پسندی کی تحریک میں نہ صرف ملوث ہے بلکہ اس کو مسلسل ہوا دے رہا ہے۔
اس بارے میں اسلام آباد میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے یہ بھی کہا، ’’بلوچستان کا ذکر کر کے مودی نے وہ سرخ لکیر پار کر لی تھی جو انہیں عبور نہیں کرنا چاہیے تھی۔‘‘ اس طرح کشیدگی زیادہ ہو جانے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین ایک دوسرے کے قریب آ سکنے کے لیے ہونے والی ممکنہ بات چیت کا امکان مزید کم ہو گیا۔
اب یہی کم تر مذاکراتی امکانات اور ان کا تدارک امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس دورے کے ایجنڈے میں بھی شامل ہیں، جس کے لیے کیری آئندہ پیر انتیس اگست سے تین روز کے لیے بھارت میں ہوں گے۔
اس بارے میں روئٹرز نے ایک سینئر بھارتی اہلکار کے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر دیے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’’کئی تجربہ کار بیوروکریٹس نے تجویز دی تھی کہ بھارت کو بلوچستان کی بات کرنی تو چاہیے لیکن اس کے لیے یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں تھا۔‘‘
اس بھارتی اہلکار نے مزید بتایا کہ وزیر دفاع منوہر پریکر نے اعلیٰ ملکی بیوروکریٹس کے ’ان خیالات کو مسترد کر دیا‘ تھا اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی منوہر پریکر کی سوچ کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ہمیں پاکستان کو چپ کرانے کے لیے سب کچھ کرنا چاہیے۔‘‘
روئٹرز نے لکھا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ، وزیر اعظم مودی کے دفتر اور دفاع اور داخلہ امور کی ملکی وزارتوں سے جب مودی کی تقریر کی تیاریوں کے لیے ہونے والے اجلاس میں بحث پر سرکاری ردعمل دریافت کیا گیا، تو وزیر اعظم کے دفتر اور تینوں متعلقہ بھارتی وزارتوں میں سے کسی نے بھی اس سلسلے میں کوئی تبصرہ نہ کیا۔