1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

مودی کے دورہ کشمیر پر پاکستان کو تبصرے کا حق نہیں ہے، بھارت

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
29 اپریل 2022

بھارت نے مودی کے دورہ کشمیر پر پاکستانی بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کو کشمیر پر تبصرہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود اس کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔

Indiein Srinagar 2018 | Narendra Modi, Premierminister
تصویر: Dar Yasin/AP Photo/picture alliance

بھارت نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ جموں و کشمیر سے متعلق پاکستانی بیانات پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ اسلام آباد کے پاس بھارت کے زیر انتظام علاقوں سے متعلق امور پر تبصرہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں کشمیر کا دورہ کیا، جس پر پاکستان نے اعتراض کیا تھا۔

نئی دہلی میں وزارت خارجہ کی معمول کی میڈیا بریفنگ کے دوران پاکستانی ریمارکس کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی نے کہا کہ کشمیر میں ''زمینی سطح پر جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ کسی بھی سوال کا بہت واضح جواب ہے'' اور اسلام آباد کو جموں و کشمیر کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔''

حال ہی میں جب پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالا تھا تو اس وقت دونوں رہنماؤں کی جانب سے خیر سگالی کے جو بیانات سامنے آئے، اس سے لگتا تھا کہ تعلقات میں کچھ بہتری کی توقع ہے، تاہم کشمیر کے حوالے سے دونوں میں وہی پرانی بحث و تکرار جاری ہے۔

بھارت نے کیا کہا؟

میڈیا بریفنگ کے دوران پاکستانی ریمارکس کے بارے میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی نے کہا، ''میرے خیال سے یہ بالکل واضح ہے کہ ان (وزیر اعظم مودی) کا وہاں جس انداز سے استقبال ہوا، جو آپ نے دیکھا اور جن ترقیاتی منصوبوں کا انہوں نے افتتاح کیا اور جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ ان تمام سوالوں کا واضح جواب ہے، جو وزیر اعظم کے دورے کے بارے میں اٹھائے جاتے ہیں۔''

 ان کا مزید کہنا تھا، ''بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ جموں و کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس پر کسی بھی صورت میں پاکستان کے پاس اپنے نقطہ نظر

 سے بات کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا، اگر کوئی خود ہی اس دورے پر سوال اٹھائے تو کیا بات ہوئی۔''

بھارتی ترجمان نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف پر بھی تنقید کی، جنہوں نے مودی کے دورہ کشمیر کو اسٹیجڈ یعنی منظم دکھاوا قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا، ''مجھے اسٹیجڈ کا لفظ سمجھ میں نہیں آیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دورہ ہوا ہی نہیں اور ہم یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا ہوا ہے۔''

تصویر: imago images/Hindustan Times

بھارتی ترجمان نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور اس حوالے سے مستقبل کے روڈ میپ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نئی دہلی کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہمارا مؤقف بہت سادہ ہے، دہشت گردی سے پاک ماحول میں ہی بات چیت ہونی چاہیے۔ ہمارا اصل مسئلہ دہشت گردی سے پاک ماحول ہے اور یہ ایک جائز مطالبہ ہے۔''

پاکستان نے مودی کے دورے پر کیا کہا تھا؟

اس سے قبل جب اتوار کے روز بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر کا دورہ کیا تو پاکستان نے اسے وادی کشمیر میں، ''حالات کو معمول کے مطابق پیش کرنے کی ایک جھوٹی چال'' قرار دیا تھا۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا، ''پانچ اگست 2019 کے بعد سے، بین الاقوامی برادری، کشمیر کے اصل بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی خاطر بھارت کی جانب سے ایسی بہت سی ناکارہ کوششوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔''

خود وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اپنے ایک بیان میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کشمیر کو محض ایک دکھاوا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو اس طرح سے منظم کیا گیا جیسے کشمیر میں سب کچھ بہتر ہو، حالانکہ کشمیر کی صورت حال اس کے بر عکس ہے۔

تعلقات کی بہتری کی امید

گزشتہ ماہ جب پاکستان میں حکومت تبدیل ہوئی اور شہباز شریف نے اقتدار سنبھالا تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے شہباز شریف کو ان کی حلف برداری کے چند منٹوں کے بعد ہی مبارکباد پیش کی اور کہا تھا کہ ''بھارت دہشت گردی سے پاک خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔''

اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے پہلے ہی شہباز شریف نے بھی اپنے ایک بیان میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے اور امن کی بات کہی تھی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ''مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر امن ممکن نہیں ہے۔''

انہیں مثبت بیانات کی روشنی میں دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس وقت مبصرین نے یہ بھی کہا تھا کہ سفارتی پیش رفت کی توقع تو ہے تاہم بھارت کا رویہ اس معاملے میں بہت محتاط ہے۔

غزوہ ہند، جناح، پاکستان یا ترقی: اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کا موضوع آخر ہے کیا؟

04:37

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں