مودی کے فیصلے کے بعد کشمیر میں پہلی مسلح جھڑپ، دو افراد ہلاک
21 اگست 2019
مودی حکومت کی طرف سے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے اب تک ہونے والی پہلی مسلح جھڑپ میں دو افراد مارے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک پولیس اہلکار تھا اور دوسرا ایک مشتبہ عسکریت پسند۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں سری نگر سے بدھ اکیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پولیس نے بتایا کہ جب سے نئی دہلی حکومت نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بعد سے اب تک پہلی مرتبہ ریاست میں بھارتی سکیورٹی دستوں اور کشمیری عسکریت پسندوں کے مابین ایک خونریز جھڑپ ہوئی ہے۔ اس لڑائی میں ایک مشتبہ عسکریت پسند کے علاوہ ایک بھارتی سکیورٹی اہلکار بھی مارا گیا۔
کنٹرول لائن کے دونوں طرف بھی ہلاکتیں
اسی دوران دو ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین سرحدی کشیدگی بھی زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کشمیر میں کنٹرول لائن کے پار سے بھارتی دستوں کی طرف سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تین عام شہری مارے گئے۔
دریں اثناء پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے بھارتی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کل منگل کے روز کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں کنٹرول لائن کے قریب پاکستانی دستوں کی طرف سے بھارتی فوجی پوزیشنوں پر کی گئی فائرنگ میں ایک بھارتی فوجی ہلاک اور چار دیگر زخمی ہو گئے۔
اس طرح بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح جھڑپوں اور کنٹرول لائن پر دونوں حریف ممالک کے دستوں کے مابین ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں کشمیر سے متعلق مودی حکومت کے فیصلے کے بعد سے ایک بار پھر متعدد افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور یہ ہلاکتیں خراب سے خراب تر ہوتی ہوئی صورت حال کی عکاسی کرتی ہیں۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
کشمیر کی صورت حال 'دھماکا خیز‘، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ کشمیر کی صورت حال 'دھماکا خیز‘ ہے اور وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک بار پھر گفتگو میں اس تنازعے میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین ممکنہ ثالثی کے بارے میں بات چیت کریں گے۔
امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں منگل کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''کشمیر ایک بہت پیچیدہ جگہ ہے۔ وہاں ہندو بھی رہتے ہیں اور مسلمان بھی۔ اور میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے باہمی تعلقات بہت شاندار ہیں۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا، ''میں ثالثی کے لیے اپنی وہ بھرپور کوشش کروں گا، جو میں کر سکتا ہوں۔‘‘
ہزاروں کشمیری تاحال زیر حراست
اس ماہ کے اوائل میں جب سے مودی حکومت نے نئی دہلی کے زیرانتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اپنے زیر انتظام اس خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں بھارت کے یونین علاقے بنا دینے کا فیصلہ کیا ہے، تب سے اب تک خود بھارتی حکومتی اور سکیورٹی ذرائع کے مطابق کم از کم بھی چار ہزار کشمیری سیاستدانوں، سماجی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اس کے علاوہ کشمیر میں عوامی نقل و حرکت کی آزادی بھی تاحال انتہائی محدود ہے جبکہ وادی میں مواصلاتی رابطوں کی دستیابی کے حوالے سے بھی ایک 'بلیک آؤٹ‘ نافذ کیا جا چکا ہے۔ اس صورت حال کو کئی بین الاقوامی ماہرین علاقائی اور عالمی سطح پر شدید تشویش کی وجہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
امریکی دفتر خارجہ کا موقف
ان حالات میں واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ کے ذرائع نے کہا ہے، ''ہمیں کشمیر میں بےتحاشا گرفتاریوں، نقل و حرکت کے انتہائی محدود کیے جانے اور خطے کے عوام پر لگائی جانے والی پابندیوں پر گہری تشویش ہے۔‘‘
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر اے ایف پی کو بتایا، ''ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیر میں شہریوں کے شخصی حقوق کا احترام کیا جائے، قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھا جائے اور ایسی مکالمت شروع کی جائے، جو تنازعے کی شدت میں کمی کا سبب بن سکے۔‘‘
م م / ا ا / اے ایف پی
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔