زمبابوے کے اپوزیشن رہنما مورگن چوانگرائی پینسٹھ برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی سیاسی پارٹی نے بتایا ہے کہ وہ جوہانبسرگ کے ایک ہسپتال میں آنتوں کے کینسر کا علاج کرا رہے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے زمبابوے کی اپوزیشن پارٹی ’تحریک برائے جموری تبدیلی‘ (ایم ڈی سی) کے حوالے سے بتایا ہے کہ پینسٹھ سالہ مورگن چوانگرائی بدھ کی رات جنوبی افریقہ کے ایک ہسپتال میں وفات پا گئے۔ وہ وہاں آنتوں کے سرطان کا علاج کرا رہے تھے۔
سابق وزیر اعظم چوانگرائی نے سن انیس سو ننانوے میں اپنی سیاسی جماعت ’تحریک برائے جموری تبدیلی‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کا سیاسی کیریئر سابق صدر رابرٹ موگابے کے خلاف سیاسی جدوجہد میں گزرا تھا۔ ان کے انتقال کو زمبابوے کی سیاست کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
اِن خاندانوں کے شکنجے میں پورا افریقہ
براعظم افریقہ میں سیاست اکثر خاندان کے اندر ہی رہتی ہے: باپ کے بعد بیٹا عہدہٴ صدارت کا وارث بنتا ہے، بیٹی ریاستی اداروں کی سربراہی کرتی ہے اور اہلیہ وزیر کے منصب پر فائز ہوتی ہے۔ دیکھیے خاندانی سیاست کی چند ایک مثالیں۔
تصویر: DW/E. Lubega
میرا بیٹا، میرا باڈی گارڈ
یوویری موسوینی ایک طویل عرصے سے یوگنڈا کے صدر ہیں۔ یہ تصویر اُن کے سب سے بڑے بیٹے موھوزی کاینیروجابا کی ہے، جو ملکی فوج میں ایک بڑے افسر ہیں اور اُس خصوصی یونٹ کے کمانڈر بھی، جو صدر کی حفاظت پر مامور ہے۔ موسوینی کی اہلیہ جینٹ تعلیم و تربیت اور کھیلوں کی وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل ہیں۔ اُن کے ہم زُلف سَیم کُٹیسا وزیر خارجہ ہیں۔
تصویر: DW/E. Lubega
صدر کی بیٹی، اربوں کی مالک
انگولا کے صدر کی سب سے بڑی صاحبزادی ازابیل دوس سانتوس افریقہ کی دولت مند ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ ملک کی سب سے بڑی فرنیچر ساز کمپنی اور سرکاری تیل کمپنی سون انگول کی بھی مالک ہیں اور اُن کی سُپر مارکیٹ کی شاخیں ملک بھر میں ہیں۔ اُن کا بھائی انگولا کے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کے سرمایے کے حامل ریاستی فنڈ FSDEA کا سربراہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
باپ صدر، بیٹا نائب صدر
یہ ہیں، تیودور انگوئما اوبیانگ مانگُو، اُستوائی گنی کے دوسرے نائب صدر۔ اُن کے والد تیودور اوبیانگ مباسوگُو 1979ء سے ملک کے صدر چلے آ رہے ہیں۔ صدر کا سوتیلا بیٹا گیبریئل ایمبیگا اوبیانگ تیل کے امور کا وزیر ہے۔ صدر کا سالا اینسُو اوکومو تیل کے کاروبار سے متعلق سرکاری ادارے GEPetrol کا سربراہ ہے۔
تصویر: Picture-alliance/AP Photo/F. Franklin II
انتہائی با اثر جڑواں بہن
یہ ہیں، کانگو کے سابق صدر لاؤراں کابیلا کی صاحبزادی جینٹ دیسیرے کابیلا کیونگُو، جن کے بھائی جوزیف کابیلا آج کل ملک کے صدر ہیں۔ جینٹ ملکی پارلیمان کی بھی رکن ہیں اور ایک میڈیا کمپنی کی بھی مالک ہیں۔ ’پانامہ لِیکس‘ سے پتہ چلا کہ وہ ایک ایسی آف شور کمپنی کی سربراہ بھی ہیں، جو کانگو کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی کے شیئرز کی مالک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. D. Kannah
کل سیکرٹری، آج خاتون اوّل
گریس مُوگابے زمبابوے میں ایک طویل عرصے سے صدر چلے آ رہے رابرٹ مُوگابے کی دوسری اہلیہ ہیں۔ ان دونوں کا معاشقہ اُس وقت شروع ہوا تھا، جب گریس ابھی صدر کی سیکرٹری تھیں۔ اب گریس مُوگابے حکومتی پار ٹی کی ’خواتین کی لیگ‘ کی چیئر پرسن ہیں اور انتہائی با اثر ہیں۔ گو وہ اس کی تردید کرتی ہیں تاہم اُنہیں اپنے 92 سالہ شوہر کی جانشین تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Mukwazhi
سابقہ اہلیہ کے بڑے سیاسی عزائم
نکوسازانا دلامینی زُوما پہلی خاتون ہیں، جنہیں افریقی یونین کا سربراہ چُنا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ جنوبی افریقہ کے اُس دور کے صدر تھابو ایم بیکی کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھیں اور پھر اپنے سابق شوہر جیکب زُوما کی حکومت میں وزیر داخلہ۔ وزارت کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے ہی نکوسازانا کی اپنے شوہر جیکب زُوما سے علیحدگی ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Prinsloo
ریاست بہ طور فیملی بزنس
ری پبلک کانگو کے صدر ڈینس ساسُو اینگوئیسو کے خاندان کے ارکان کئی بڑے سیاسی عہدوں پر فائز ہیں اور متعدد اہم کمپنیوں کے مالک ہیں۔ اُن کی بیٹی کلاؤڈیا (تصویر میں) اپنے والد کے مواصلاتی شعبے کی نگران ہیں، اُن کے بھائی ماؤریس متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں جبکہ صدر کے بیٹے ڈینس کرسٹل کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ اُسے جانشینی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gervais
نصف صدی سے حکمران خاندان
گیبون میں عمر بونگو اوندیمبا نے اکتالیس برس تک حکومت کی، یہاں تک کہ 2009ء میں اُن کا بطور صدر ہی انتقال ہو گیا۔ بعد ازاں متنازعہ انتخابات میں اُن کے بیٹے علی بونگو سترہ دیگر امیدواروں کو واضح طور پر شکست دے کر کامیاب ٹھہرے۔ 2016ء میں ایک بار پھر انتخابات جیت گئے۔ یوں یہ خاندان گیبون پر گزشتہ نصف صدی سے برسرِاقتدار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Longari
جیسا باپ، ویسا بیٹا
غناسینغبی ایادیما ٹوگو میں طویل عرصے تک صدر کے عہدے پر براجمان رہے۔ اُن کے تقریباً پچاس بچوں میں سے صرف ایک یعنی فور غناسینغبی (تصویر میں) نے سیاست میں قدم رکھا۔ آج کل وہی ملک کے حکمران ہیں۔ کینیا اور بوتسوانہ میں بھی آج کل جو شخصیات حکمرانی کر رہی ہیں، اُن سے پہلے اُن کے باپ ملک کے حکمران تھے۔
تصویر: I. Sanogo/AFP/Getty Images
9 تصاویر1 | 9
سابق صدر رابرٹ مگابے کے دور میں چونگرائی کو حکومت پر کڑی تنقید کرنے پر کئی مرتبہ حراست میں لیا گیا۔ اسی کی دہائی میں بطور یونین لیڈر چوانگرائی نے مگابے کی مطلق العنان حکومت کے خلاف ایک سخت مزاحمت شروع کی تھی۔
سن 1989 میں انہوں نے اس افریقی ملک میں سیاسی سطح پر تحریک چلانا شروع کی، جس کے دس برس بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس وقت میں موگابے کی حکومت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکے تھے۔
مارچ سن دو ہزار سترہ میں جب چونگرائی اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے ہرارے میں ایک حکومت مخالف مظاہرے کا انعقاد کیا تو پولیس نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ اسی سال منعقد ہوئے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں انہوں نے موگابے پر برتری حاصل کر لی تھی۔
تاہم اس کے بعد شروع ہونے والے تشدد کے باعث چوانگرائی کو صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے دستبردار ہونا پڑ گیا تھا۔ اس وقت پرتشدد واقعات کے نتیجے میں دو سو افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔
اسی متنازعہ الیکشن کے بعد چوانگرائی نے موگابے کی زانو پی ایف پارٹی کے ساتھ مل کر متحدہ حکومت بنائی اور تب انہیں ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔ چونگرائی کا کہنا تھا کہ ان پر کئی قاتلانہ حملے بھی کیے گئے۔ ان میں وہ واقعہ بھی شامل ہے، جس میں سن انیس سو ستانوے میں کچھ لوگوں نے چوانگرائی کو ان کی دفتر کی عمارت کی کھڑکی سے باہر پھینکنے کی کوشش کی تھی۔
مورگن چونگرائی کا انتقال ایک ایسے وقت پر ہوا ہے، جب زمبابوے میں کچھ ماہ بعد ہی صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاسی ناقدین کے مطابق اس مخصوص وقت پر چوانگرائی کے انتقال کی وجہ سے ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ایم ڈی سی کے دو سنیئر ممبران کے مابین کھلے عام ہونے والی ایک زبانی جھڑپ بھی عام ہوئی تھی، جس میں دونوں خود کو پارٹی کا نیا رہنما بنانے پر بحث کر رہے تھے۔
ہرارے میں مقیم سیاسی امور کے ماہر الیگزنڈر روسیرو نے چوانگرائی کے انتقال کو زمبابوے کی سیاست کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ زمبابوے میں موگابے کی آمرانہ حکومت کے خلاف چوانگرائی کی جدوجہد ہمیشہ یاد رہے گی، ’’موگابے کی آمریت کا اثر زائل کرنے میں چوانگرائی کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وہ حزب اختلاف کی سیاست میں ایک گاڈ فادر تھے، جنہوں نے مگابے کی ڈکٹیٹر شپ کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔‘‘
افریقہ کی امیر ترین شخصیات کہاں رہتی ہیں؟
افریقہ کے زیریں سحارا علاقوں میں غربت ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم نیو ورلڈ ویلتھ نامی ادارے کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق اس براعظم میں لکھ پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW
جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں براعظم افریقہ کے سب سے زیادہ لکھ پتی افراد مقیم ہیں۔ چھیالیس ہزار آٹھ سو ایسے افراد کیپ ٹاؤن اور جوہانسبرگ میں رہتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق اس ملک میں لکھ پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تقابلی جائزے کے حوالے سے آپ کو بتاتے چلیں کہ برطانیہ میں لکھ پتی افراد کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ چالیس ہزار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نائجیریا
فوربز میگزئن کے مطابق افریقہ کا امیر ترین شخص آلیکو ڈانگوٹے نائجیریا سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ خوراک کی مصنوعات، سیمنٹ اور منرل آئل کے شعبہ جات سے منسلک ہیں۔ ڈانگوٹے کی مجموعی مالیت 18.2 بلین امریکی ڈالر ہے۔ اس افریقی ملک سے بھی لوگ یورپ میں پناہ لینے کے لیے فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Von Loebell/World Eco
کینیا
کینیا میں آٹھ ہزار پانچ سو لکھ پتی افراد کے پاس موجود رقوم ملک کی مجموعی اقتصادیات کے دو تہائی کے برابر بنتی ہیں۔ اس افریقی ملک میں امیر ترین افراد کے پاس اوسطاً 83 ملین ڈالر کے برابر رقوم موجود ہیں۔ دوسری طرف اس ملک کی تقریبا نصف سے زائد آبادی یومیہ دو ڈالر سے بھی کم کماتی ہے۔
تصویر: Fotolia/vladimir kondrachov
انگولا
نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی افریقی ملک انگولا میں آئل کی صنعت میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے باعث انفرادی سطح پر متعدد افراد امیر ترین بن گئے ہیں۔ اسی ملک میں افریقہ کی امیر ترین خاتون بھی رہتی ہے۔ ملکی صدر کی بیٹی ازبیلا دوس سانتوس کی ویلتھ کا اندازہ 3.2 بلین ڈالر لگایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
موریشس
بحرہند میں واقع اِس جزیرے پر صرف تیرہ لاکھ افراد آباد ہیں۔ اس کے باوجود اس ملک میں تین ہزار دو سو لکھ پتی افراد رہتے ہیں۔ یوں تناسب کے اعتبار سے افریقہ میں سب سے زیادہ امیر ترین افراد اسی ملک میں رہتے ہیں۔ اس ملک میں سیاحت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے جبکہ ’ٹیکس ہیوَن‘ کے حوالے سے بھی اس ملک کی ساکھ بنتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Ria Novosti/Anton Denisov
نمیبیا
اس ملک میں کان کنی کی صنعت ملک کی پچیس فیصد معیشت کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ نمیبیا کی برآمدت میں ہیرے انتہائی اہم شمار کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس ملک کی آبادی تقریبا دو ملین کے قریب ہے لیکن یہاں اکتیس سو افراد کے پاس ایک ملین ڈالر مالیت سے زائد کا سرمایا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Smityuk
ایتھوپیا
زیریں سحارا کے اِس افریقی ملک ایتھوپیا نے حال ہی میں ایسے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے، جہاں امیرترین شخصیات مسکن بنائے ہوئے ہیں۔ قدرے استحکام اور غیر ملکی سرمایا کاری کی وجہ سے یہ ملک 2003ء سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ اس ملک میں اٹھائیس سو افراد خود کو امیر ترین کہہ سکتے ہیں۔ تاہم اس افریقی ملک میں بھی ایک تہائی آبادی ابھی تک غربت کا شکار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
گھانا
سونا، تیل اور کوکو گھانا کی اہم ترین برآمدات ہیں اور انہی کی وجہ سے وہاں کچھ لوگ امیر بھی ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ گھانا میں فنانشل سروسز اور پراپرٹی کے کام نے بھی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
بوٹسوانا
عالمی بینک کے مطابق بوٹسوانا اس براعظم میں ترقیاتی منصوبہ جات کے حوالے سے ایک اہم مثال ہے۔ کئی عشروں سے اس ملک کی اقتصادی نمو کی شرح میں قدرے استحکام دیکھا جا رہا ہے۔ اس ملک میں چھبیس سو افراد لکھ پتی ہے۔ ان میں سے بہت ہیروں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ تاہم اس ملک میں بھی غربت ایک بڑا مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایچ آئی وی اور بے روزگاری بھی اس ملک کے مسائل میں شامل ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
آٹھ سال قبل ہی آئیوری کوسٹ میں جنگ ختم ہوئی تھی۔ تب سے اس افریقی ملک میں اقتصادی ترقی کی رفتار قدرے مستحکم ہے۔ آئیوری کوسٹ میں تئیس سو لکھ پتی افراد رہتے ہیں۔ ان افراد کی تعداد آئندہ کچھ سالوں کے دوران مزید بڑھنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ لیکن یہاں ہر کوئی منافع میں نہیں ہے۔