یونان میں مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ موریا میں 12000 ہزار سے زیادہ پناہ گزین مقیم تھے۔ موریا میں آگ لگنے سے تمام خیمے تباہ ہوگئے اور پناہ کے ہزاروں متلاشی ایک مرتبہ پھر بے گھر ہوگئے۔ یورپی پناہ کا قانون ناکام ہوگیا؟
اشتہار
سانحہ موریا کیمپ کی کہانی
موریا مہاجر کیمپ میں مقیم پناہ گزینوں کو آتشزدگی سے پہلے بھی ایک تباہ کن صورتحال کا سامنا تھا۔ اس سانحے کے بعد یورپی یونین کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
موریا کیمپ: آگ کے شعلوں کی نظر
یونانی جزیرے لیسبوس پر واقع پناہ گزینوں کے موریا کیمپ میں بدھ کے روز کئی مقامات پر آگ بھڑک گئی۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ آتشزدگی کسی خاص مقصد کے تحت شروع کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Lagoutaris
پناہ گزین ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر
موریا کیمپ میں لگنے والی آگ سے پناہ گزین خود کو بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ بہت سے افراد کیمپ کے قریب پہاڑیوں اور جنگلوں کی طرف فرار ہوگئے۔ ہزاروں مہاجرین ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر شب بسر کرنے پر مجبور ہوگئے۔
تصویر: Imago Images/Xinhua/P. Balaskas
کیمپ کی ناقص صورتحال
موریا کیمپ کو 2800 افراد کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم، کیمپ میں آگ لگنے کے وقت 12600 پناہ گزین مقیم تھے۔ اس سانحے سے پہلے ہی موریا کیمپ میں صورت حال کو تباہ کن سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: Reuters/E. Marcou
ترکی کے قریب
موریا کیمپ یونان کے تیسرے بڑے جزیرے لیسبوس کے مشرق میں واقع ہے۔ ترکی کے ساحل سے لیسبوس کا فاصلہ تقریباﹰ 15 کلومیٹر ہے۔ اس جزیرے پر لگ بھگ 90000 رہائشی رہتے ہیں۔
انتظار، انتظار اور انتظار
یورپی یونین اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد سے پناہ گزینوں کو یونانی جزیرے سے یورپ کے زمینی علاقوں میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں۔ کیونکہ، یورپی یونین کے رکن ممالک اس بارے میں متفق نہیں کہ کونسا ملک کتنے مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ کی اجازت دے گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
کورونا وائرس بھی پہنچ گیا
مہاجرین کے ہجوم سے بھرے موریا کیمپ میں حفظان صحت کے ناقص نظام، طبی سہولیات کی عدم دستیابی، نسلی تناؤ کے بعد حال ہی میں کورونا کے کیسز بھی سامنے آئے۔ موریا مہاجر کیمپ میں آگ تو اب لگی ہے لیکن وہاں ایک تباہ کن صورت حال پہلے سے تھی۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
6 تصاویر1 | 6
مہاجرین کا بحران ایک انسانی المیہ ہے، جس نے یورپی یونین کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ سن 2015 میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کا ایک ہجوم یورپی یونین کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس دوران جرمن چانسلر میرکل نے کہا تھا، ہم یہ کر سکتے ہیں۔ پناہ گزینوں کے بحران میں جرمنی کے لیے میرکل کا یہ کہا کافی حد تک کامیاب ثابت ہوا لیکن شاید یورپی یونین کے لیے نہیں اور یونان میں مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ موریا میں آتشزدگی نے اسے ثابت کردیا ہے۔ موریا کیمپ میں آگ لگنے کے چوبیس گھنٹے بعد ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کتنے پناہ کے متلاشی افراد ایک مرتبہ پھر بے گھر ہوچکے ہیں۔
سن 2015 سے کیا بدلا ہے؟
یورپی یونین کے رکن ممالک کم از کم ایک بات پر اتفاق کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ یورپی یونین کی سرحدوں کو مضبوط بنایا جائے۔ اس حکمت عملی کا ایک حصہ ترکی کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ ہے جس کا مقصد تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو بغیر کنڑول کے یورپ آنے سے روکنا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں ایک تنازعہ پیدا ہوگیا کہ اس معاہدے کے بدلے ترکی کو کیا ملے گا؟ لیکن مجموعی طور پر معاہدے پر عملدرآمد کیا گیا۔
ترکی کو مہاجرین کے لیے یورپی یونین کی امداد فراہم کی گئی، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوئی بھی سرحد پار نہ کر سکے۔
یورپی یونین نے تجارتی معاہدوں کے ساتھ ساتھ ترقیاتی تعاون کے منصوبوں میں بھی، اب یہ شرط شامل کر دی ہے کہ افریقہ کے ساتھی ممالک ہجرت پر سختی سے قابو پانے کی کوشش کریں۔ اسی تناظر میں، لیبیا کے کوسٹ گارڈز کو بھی یورپی یونین کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی گئی۔ اس کے برعکس سمندر میں ریسکیو سروسز عدم توجہ کا شکار رہیں۔
یورپ کی سرحدیں تو مضبوط ہوگئیں لیکن شاید انسانی حقوق، تشدد اور جنگ سے متاثرہ افراد کا تحفظ، اور بین الاقوامی معاہدےنظر انداز ہوگئے۔ یورپی کمیشن کا منصوبہ تھا کہ یونانی جزیرے لیسبوس پر قائم رجسٹریشن سینٹر میں پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کی درخواستوں پر جلد از جلد کارروائی کی جائے۔
اشتہار
موریا یورپی یونین کی ناکامی کی علامت
یورپ کا سب سے بڑا مہاجرین کیمپ موریا۔آتشزدگی اور کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل بھی یورپی یونین کی ناکامی کی ایک علامت ہے۔ تین ہزار افراد کے لیے تعمیر کیے گئے اس کیمپ میں بارہ ہزار افراد رہ رہے تھے۔ پناہ کے متلاشی افراد کی ایک درخواست پر کارروائی میں دنوں کے بجائے سال لگ جاتے تھے۔ اس کی وجہ، بہت زیادہ بیوروکریسی، لاعلمی اور سیاسی مرضی کا فقدان رہی۔
گزشتہ پانچ برسوں سے مہاجرین کی یورپ آمد پر نظر رکھنے والے صحافی جیورج میتھیوس کے مطابق یہ ایک کھلا راز ہے کہ یورپی پناہ کا قانون ناکام ہوگیا ہے۔ میتھیوس کے بقول ڈبلن کے نام نہاد قوانین کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد اپنی درخواستیں اسی ملک میں جمع کرواسکتے ہیں، جہاں سے وہ یورپی سرزمین میں داخل ہوئے ہوں۔
برسلز میں ڈی ڈبلیو نیوز کے نامہ نگار جیورج میتھیوس کے مطابق یورپ کی بیرونی سرحدوں پر واقع ممالک جیسے کہ اٹلی اور یونان کےساتھ یہ صرف ناانصافی ہی نہیں بلکہ یہ ان کے لیے یہ ممکن بھی نہیں ہے۔
یورپی یونین کے کمیشن نے ملکی آبادی اور معاشی طاقت کے حساب سے پناہ گزینوں کو تقسیم کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بھی کارآمد ثابت نہ ہو سکا۔ ہنگری، پولینڈ، چیک رپبلک اور سلوواکیہ کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ مشرقی یورپ کسی بھی طرح کی امیگریشن کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔
جرمنی، سویڈن، یا پھر لکسمبرگ جیسے چند ملکوں نے رضاکارانہ طور پر مہاجرین کو پناہ کی اجازت دی۔
مہاجرین کے بعد کورونا بحران
مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے پانچ سال بعد بھی یورپی یونین میں مہاجرین کے معاملے پر گہری تقسیم ہے۔ اس کی ایک مثال کورونا وبا ہے۔ بعض ممالک کورونا وبا کی آڑ میں اب تارکین وطن کے خلاف اقدامات سخت کر رہے ہیں۔
ایک طویل تاخیر کے بعد، یورپی یونین کا کمیشن آخر کار موسم خزاں میں سیاسی پناہ اور ہجرت کا اپنا نیا منصوبہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن اس بات پر قائل ہیں: یورپی یونین میں سیاسی پناہ کے قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
کس ملک کے کتنے شہری بیرون ملک آباد ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق سن 2020 تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 272 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: AFP
1۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز تک قریب ایک کروڑ اسی لاکھ (18 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ زیادہ تر بھارتی تارکین وطن امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ہیں۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
2۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو، قریب ایک کروڑ بیس لاکھ (12 ملین) بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی 90 فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jaramillo Castro
3۔ چین
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2019 تک ایک کروڑ دس لاکھ (11 ملین) سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چین تیسرے نمبر پر ہے۔ چینی تارکین وطن کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا میں آباد ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد 44 لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. J. Brown
4۔ روس
چوتھے نمبر پر روس ہے جس کے ایک کروڑ (10.5 ملین) سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ روسی تارکین وطن جرمنی، امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ سابق سوویت ریاستوں میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Zentrum Gleiche Kinder
5۔ شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے 80 لاکھ شہری دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں 26 ویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شامی مہاجرین کی اکثریت ترکی، اردن اور لبنان جیسے پڑوسی ملکوں میں ہے تاہم جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں بھی شامی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
6۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کی تیار کردہ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق قریب 80 لاکھ بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ بنگالی شہری بھارت اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔
تصویر: dapd
7۔ پاکستان
70 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک، برطانیہ اور امریکا میں موجود ہیں۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد سے پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Iftikhar Ali
8۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائنی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے آغاز تک چھ ملین یوکرائنی شہری بیرون ملک آباد تھے۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
9۔ فلپائن
57 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائنی شہریوں کی تعداد 30 لاکھ تھی۔ گزشتہ 17 برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائنی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
10۔ افغانستان
افغانستان 50 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں دسویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک 22 لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔