نومبر کے آخری میں گیمبیا سے روانہ ہونے والی اس کشتی پر ڈیڑھ سو مہاجرین سوار تھے۔ کشتی کی غرقابی کے بعد 83 افراد ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اشتہار
مہاجرین کی بین الاقوامی تنظیم ( آئی ایم او) نے بتایا ہے کہ موریطانیہ کے ساحلوں کے قریب بحر اوقیانوس میں کشتی ڈوبنے کے واقعے میں ستاون تارکین وطن ہلاک ہوئے ہیں۔ اسے یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران اس سال کے ہلاکت خیز واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ آئی ایم او نے اپنے بیان میں مزید بتایا کشتی پر سوار تراسی دیگر افراد تیر کر خشکی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
غرق ہونے والی کشتی پرخواتین اور بچوں سمیت ڈیڑھ سو افراد سوار تھے۔ آئی ایم او نے بتایا ہے کہ جیسے ہی کشتی موریطانیہ کے پانیوں میں پہنچی اس کا ایندھن ختم ہو گیا۔
بچ جانے والے افراد نے بتایا کہ موریطانیہ کے شمالی شہر نوابیدو کی انتظامیہ کی جانب سے ان کی مدد کی گئی۔ آئی ایم او کی موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے مشن کی سربراہ لورا لنگاروتی کے مطابق،''موریطانیہ کی حکومت نے بہت ہی مؤثر انداز میں نوابیدو میں موجود مختلف تنظیموں سے رابطہ کیا اور فوری اقدامات کیے۔‘‘
ان افراد نے مزید بتایا کہ انہوں نے ستائیس نومبر کو گیمبیا سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس دوران حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ گیمبیا کی آبادی تقریباً دو ملین ہے۔ آئی ایم او کے مطابق 2014ء سے 2018ء کے دوران گیمبیا کے پینتیس ہزار سے زائد شہری ملک چھوڑ کر یورپ پہنچے ہیں۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔