1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمياتی تبديليوں کے سبب بھوک ميں اضافے کا امکان، رپورٹ

عاصم سلیم
16 نومبر 2017

سائنسدانوں کے مطابق موسمياتی تبديليوں کے سبب دنيا بھر ميں آنے والے سيلابوں، طوفانوں، سطح سمندر ميں اضافے اور ديگر آفات کے نتيجے ميں قوی امکانات ہيں کہ ايسے افراد کی تعداد ميں بھی اضافہ ہو گا، جنہيں بھوک کا سامنا ہے۔

Bangladesch Rohingya Flüchtlinge mit Kindern
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain

بھوک اور بچوں کے ليے مناسب خوراک کی عدم دستيابی جيسے مسائل ميں سن 2050 تک بيس فيصد اضافے کا امکان ہے۔ يہ انکشاف ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے جرمن شہر بون ميں جاری عالمی ماحولياتی کانفرنس کے موقع پر جاری ہونے والی ايک رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔

اس رپورٹ ميں اس ضمن ميں مختلف خطوں کو درپيش خطرات بيان کيے گئے ہيں۔ شمالی افريقہ ميں کسان اور چرواہوں کو اضافی و زيادہ طاقت ور گرمی کی لہروں، پانی کی کمی اور آبادی ميں اضافے جيسے مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے نتيجے ميں وہاں خوارک کی دستيابی منفی طور پر متاثر ہو گی۔ اسی طرح اگر جنوبی ايشيائی خطے پر نظر ڈالی جائے، تو وہاں کسانوں کی تعداد بہت زيادہ ہے اور انہيں قحط، سيلابی ريلوں، طوفانوں اور طويل المدتی بنيادوں پر غير مستحکم مون سون بارشوں جيسے مسائل کا سامنا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام ميں موسمياتی تبديليوں اور قدرتی آفات کے خطرے ميں کمی کا جائزہ لينے والے محکمے کے سربراہ گيرنوٹ لگاندا کا کہنا ہے، ’’مختلف گروپس کو مختلف اقسام کے خطروں کا سامنا ہے، جن کی شدت بھی مختلف ہے اور جن کے آنے کے اوقات بھی۔‘‘ ان کے بقول ان خطروں سے بچنے کے ليے مختلف سطحوں پر رد عمل ضروری ہے۔

اس رپورٹ کا مقصد يہ ہے کہ حکومتوں اور خوراک کی دستيابی يا عدم دستيابی کے ليے کام کرنے والے اداروں کو حقيقی صورتحال سے آگاہ کيا جا سکے اور انہيں يہ بتايا جا سکے کہ کس خطے کے کس ملک کو کس قسم کے خطرے کا سامنا ہے۔ رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ ايشيا اور افريقہ کے ممالک کو سب سے زيادہ خطرات لاحق ہيں۔

گيرنوٹ لگاندا کا مزيد کہنا تھا کہ اس رپورٹ کا جائزہ ليا جانا اور اس ميں بيان کردہ مشوروں پر عمل اس ليے بھی ضروری ہے تاکہ سن 2030 تک دنيا بھر سے بھوک کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ عالمی سطح پر خواراک کی عدم دستيابی کے مسئلے کو سن 2030 تک حل کرنا، پائيدار ترقی کے اہداف ميں شامل ہے۔

ميری خواہش

00:44

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں