موسمیاتی بحران توانائی کی فراہمی کے لیے بڑا خطرہ کیسے؟
27 فروری 2022
گرمی ہو یا تیز بارش، موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج توانائی کی ترسیل کی ضمانت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ تیل، گیس اور جوہری توانائی خاص طور سے خطرات سے دوچار ہیں۔ اس عمل کے مستقبل پر اثرات کیسے ہوں گے؟
اشتہار
جنوری کے آخر میں جنوبی امریکی ریاست ایکواڈور کے کچھ حصے طوفانی بارشوں کی زد میں رہے۔ اس کے سبب ایمیزون کے علاقے میں مشرقی صوبے ناپو میں تیل کی پائپ لائن کو شدید نقصان پہنچا۔ ہزاروں لٹر تیل بہنا شروع ہو گیا اور اس نے ارد گرد کے علاقے کو بری طرح آلودہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ حادثہ ماحول کے لیے ایک بڑے سانحے سے کم نہ تھا۔ برلن میں قائم ایک غیر سرکاری 'تھنک اینڈ ڈو‘ ٹینک 'انرجی واچ گروپ‘ کے بانی ہانس جوزف فل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج، جیسے کہ شدید بارشیں یا خشک سالی، روایتی توانائی کی دستیابی پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔‘‘ یہ ادارہ عالمی سطح پر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے اہم موضوع پر تحقیق کا کام انجام دے رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے تیل خاص طور سے خطرے میں ہے۔ حالیہ چند حادثات نے اس امر کو مزید واضح کر دیا ہے لیکن یہ توانائی کا واحد ذریعہ نہیں ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہونے والے حادثات اور واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متاثر ہو رہا ہے۔ گرمی کے مہینوں میں جوہری پاور پلانٹس کو بعض اوقات بند کرنا پڑتا ہے کیونکہ دریا اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ انہیں ٹھنڈے پانی کے ذریعے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر 2018ء میں یورپ میں موسم گرما کے دوران فرانس کو اپنے چار جوہری ری ایکٹر بند کرنا پڑے تھے۔ جرمنی کے Grohnde جوہری پاور پلانٹ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ ایسے جوہری پاور پلانٹس جو سمندر کے کنارے واقع ہیں، انہیں اس مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن انہیں ایک دوسرے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے اور وہ ہے سمندر کی سطح میں اضافے کا خطرہ۔
2018 ء میں مغربی جرمنی کے مشہور دریائے رائن میں پانی کی سطح انتہائی کم ہونے کے سبب ہیٹنگ آئل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بہت سی دیگر اشیاء کی طرح تیل کی آبی راستے سے ترسیل ممکن نہیں رہی تھی۔
خشک سالی کے اثرات
شدید خشک سالی پن بجلی کی سہولت کو بھی شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کے عالمی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 2021 ء کے موسم گرما میں گرمی کی شدید لہر کے بعد امریکا اور لاطینی امریکا کے کئی حصوں میں متعدد آبی ذخائر تقریباً سوکھ گئے۔ جولائی میں لاس ویگاس کے نزدیک ایک ہائیڈرو پاور پلانٹ نے معمول سے ایک چوتھائی کم بجلی پیدا کی۔ جرمن شہر کولون کی یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انرجی اینڈ اکنامکس (EWI) کے ایک تجزیہ کار کے مطابق لاطینی امریکا میں پن بجلی کی کم پیداوار کے سبب 2021 ء میں امریکا سے مائع قدرتی گیس کی مانگ میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ گیس براعظم یورپ کی بجائے امریکا کو فروخت کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس سال یورپ میں بجلی کی دستیابی میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
اُدھر انڈونیشا میں شدید بارشوں اور سیلاب کے ساتھ ساتھ امریکا اور آسٹریلیا میں شدید طوفان اور چین میں سیلاب کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2021 ء میں کوئلے کی کان کنی کم ہوئی اور اس طرح گیس کی طلب اور اس کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے بارے میں کی جانے والی تحقیق کے تازہ نتائج بتاتے ہیں کہ موسمیاتی بحران شمسی توانائی کی مدد سے قابو میں آ سکتا ہے۔ زور دار طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقبل کے پاور پلانٹس کے ڈھانچوں اور فریمز کے ساتھ ساتھ شمسی ماڈیولز کے شیشوں کو بھی مضبوط تر بنانے کی ضرورت پڑے گی۔ جرمنی کے مشہور زمانہ سائنسی تحقیقی ادارے 'فراؤن ہوفر انسٹیٹیوٹ فار سولر انرجی سسٹم‘ (ISE) کی ریسرچ بتاتی ہے کہ ایسا کرنا تکنیکی اعتبار سے ممکن ہے۔ ادارے کے ریسرچر ہیری رتھ کا کہنا ہے کہ توانائی کے نظام کو بہت شدید ژالہ باری کے مقابلے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔
بجلی کے بحران کا مقابلہ شمسی توانائی سے
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے توانائی کا بحران مسلسل سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر شمسی توانائی کی طرف عدم توجہ کے باوجود عوام توانائی کے اس ذریعے سے اب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
بجلی کا بحران بڑھتا ہوا
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے توانائی کا بحران مسلسل سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں بجلی کا شارٹ فال تقریباﹰ 6000 میگا واٹ تک ہے، جس پر آئندہ تین سالوں تک قابوپانا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں عوام کو بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
بجلی چوری بڑی خرابی
واپڈا کو گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 90 بلین روپے کا خسارہ ملک میں بجلی کی چوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ((PESCO بجلی کی چوری کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف بینرز اور اشتہارات میں اللہ اور رسول کا واسطہ دے کر عوام کو بجلی چوری سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
جنریٹر سے بجلی، بس سے باہر
گزشتہ سالوں میں شدید لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پورے ملک میں جنریٹرزکے استعمال میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا تھا لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے جنریٹرز کے استعمال میں بھی بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
UPS بھی بے بس
سال 2012ء تک پورے ملک میں یو پی ایس( UPS) اور انورٹرز کو کافی پذیرائی ملی تھی۔ دو گھنٹے مسلسل چارج ہونے کے بعد یہ بجلی کی عدم موجودگی میں تین سے چار گھنٹوں تک بجلی مہیاکر سکتے ہیں۔ لیکن شدید لوڈشیڈنگ میں پوری بجلی میسر نہ ہونے کی وجہ سے UPS بھی اب ناکام ہو گئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
شمسی توانائی، امید کی کرن
CEMCO نامی ایک پرائیویٹ ادارے کے سربراہ محمد حیان شمسی توانائی کے بارے میں آگاہی مہم کے دوران اعلیٰ قسم کے سولر پینل اور اس سے چلنے والے آلات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں جرمنی کے سولر پینل سب سے زیادہ پائیدار ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
سولر اسٹریٹ لائٹس
پشاور کی مختلف شاہراہوں پر شمسی توانائی سے چلنے والی سٹریٹ لائٹس نصب کی گئی ہیں، جو دن کو سورج کی روشنی سے چارج ہوکر پوری رات اجالا کرتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
پاکستان سولر انرجی کے لیے آئیڈیل ملک
پاکستان میں اوسطاﹰ تقریبا 16 گھنٹے سورج کی روشنی موجود رہتی ہے۔ ماہرین کے مطابق سورج کی روشنی کو اگر صحیح طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو پاکستان شمسی توانائی سے سات لاکھ میگا واٹ تک بجلی حاصل کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
سولر سسٹمز میں عوام کی بڑھتی دلچسپی
سولر سسٹم کے استعمال میں اضافے کے پیش نظر پشاور کی مختلف مارکیٹوں خصوصاﹰ کارخانوں اور باڑہ مارکیٹ میں شمسی توانائی سے چلنے والے آلات کی کئی دکانیں نظر آتی ہیں۔ ان دکانوں میں 6 سے 12 واٹ پر چلنے والے پنکھے، بلب، روم کولر اور استریاں بھی دستیاب ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
شمسی توانائی پر چلنے والا ریڈیو اسٹیشن
خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں واقع سرکاری ریڈیو اسٹیشن ’خیبر ریڈیو‘ کو بھی شمسی توانائی سے چلایا جا رہا تھا لیکن یہ ان دنوں کچھ انتظامی معاملات کی وجہ سے بند ہے۔
تصویر: DW/D. Babar
صحافی بھی شمسی توانائی کے شکر گزار
لوڈشیڈنگ کے دوران تحصیل جمرود کے پریس کلب میں صحافی شمسی توانائی کے ذریعے یہاں موجود کمپیوٹرز وغیرہ کو چلاتے ہیں اور علاقے کی خبریں اخبارات اور دوسرے اداروں تک بھیجتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
قبائلی علاقے شمسی توانائی سے استفادے میں آگے
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کبھی کبھی بجلی کئی کئی دنوں تک نہیں ہوتی، اس لیے ان علاقوں میں سولر سسٹم سے بجلی حاصل کرنے کا رجحان دوسرے علاقوں کے نسبت زیادہ ہے۔ خیبر ایجنسی میں تقریباﹰ ہر خاص و عام کے گھر کی چھت پر سولر پینل نظر آتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
جرمن سولر پینل مقبول
پاکستان میں شمسی توانائی سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ جرمنی دنیا میں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے والا سب سے بڑاملک ہے، اس لیے وہاں سے درآمد کردہ سولر پینل بہترین کوالٹی کے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ سب کو جرمنی کے سولر پینلز کا مشورہ دیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Babar
پشاور چھاؤنی شمسی توانائی سے روشن
پشاور چھاوٴنی (مال روڈ) کا رات کا منظر، جہاں شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس روشن ہیں۔