موسمیاتی تبدیلیاں، جانداروں کی کئی نایاب اقسام کو بھی خطرہ
25 دسمبر 2009International Union for Conservation of Nature، آئی یو سی این کی طرف سے تیارکی گئی اس تحقیقی رپورٹ میں دنیا کے مختلف خطوں کے جانداروں کی دس نایاب اقسام کا بغور مشاہدہ کیا گیا۔ نتائج کے مطابق ان تمام اقسام کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
اس رپورٹ میں برفانی ریچھ کو دنیا سے ختم ہوتی ہوئی جانداروں کی نایاب اقسام کے طور پر ایک علامت کے طور پرپیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آرکٹیک میں جتنی زیادہ برف پگھلے گی، برفانی ریچھ کو اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے اتنا ہی زیادہ تیرنا پڑے گا۔ اسی لئے نارتھ پول یعنی قطب شمالی میں اس نایاب جانور کا مستقبل، تاریک دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن صرف برفانی ریچھ ہی نہیں بلکہ آرکٹیک میں بسنے والی برفانی لومڑی اوربرفانی Seals کے علاوہ اسی برفانی علاقے میں پرورش پانے والی Beluga Whales یعنی سفید وہیل کی بقاء کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حررات میں موجودہ رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہو گا جس کے نتیجے میں وہاں بسنے والے کئی اہم جانوروں کا وجود اس دنیا سے نابود ہو جائے گا۔
اس تحقیق کی معاون Wendy Foden کہتی ہیں: ''ہم ایک ایسا فریم ورک تیار کر رہے ہیں جس سے معلوم ہو گا کی کہ وہ کون سی اقسام ہیں جو سب زیادہ خطرے کا شکار ہیں۔ اس کے لئے ہم دنیا بھر کے پرندوں ، Amphibians اور گرم پانیوں میں پرورش پانے والے کورل ریفز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ تقریبا سترہ ہزار اقسام کے مشاہدے کے بعد ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ 15 فیصد پرندے، 23 فیصد Amphibians اور 48 فیصد کورل ریفز ، ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ختم ہونے کے دہانے پر ہیں۔''
عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے صرف سمندر کی سطح ہی بلند نہیں ہو رہی ہے بلکہ سمندر اپنے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی جذب کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سمندروں کے پانی مزید ایسڈز شامل ہو رہے ہیں، جو ماحولیاتی تنوع کو برقرار رکھنے والے کورل ریفز کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ اسی طرح سمندر میں شامل ہونے والی اس تیزابیت سے سمندری حیات بھی محفوظ نہیں ہے ۔ IUCN کی رپورٹ کے مطابق سمندری حیات میں کلاؤن فش اور leatherback نامی کچھوے کی نسل بھی شدید خطرات کا شکار ہے۔
وینڈی فوڈن کہتی ہیں: '' دلچسپ امر یہ ہے کہ کچھووں میں انڈے سینچنے کے عمل کے دوران گرم درجہ حرارت، زیادہ تر مادہ بچے پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس جانور میں جنس کے اعتبار سے ایک بڑا فرق پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ کچھوے انڈے دینے کے لئے ساحل سمندر پر آتے ہیں لیکن سمندروں کی سطح میں اضافے اور بڑھتے ہوئے شدید سمندری طوفانوں کی وجہ سے ساحل بھی تباہی کا شکار ہیں اور ان کچھووں کو ساحل سمندر تک پہنچنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔''
IUCN اور دیگر ماحول دوست اداروں کا پہلے خیال تھا کہ جانداروں کی نایاب اقسام کو صرف انسانوں سے ہی خطرہ ہے۔ یعنی کئی عرصے تک یہی ادارے اس موقف کا اظہار کرتے رہے کہ جنگلات کوکاٹنا نہیں چاہئے اور نایاب جانوروں کا غیر قانونی شکار نہیں کرنا چاہئے ، تاہم اب ماحول دوست اداروں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ ماحولیاتی تنوع کو ایک بڑا خطرہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے بھی ہے۔ IUCN سے منسلک Neville Ash کہتے ہیں: '' تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوتا ہے تو پہلے سے ہی خطرات کی شکار نایاب اقسام میں سے دس فیصد مزید خطرات میں گھر جائیں گی اور اگر درجہ حرارت میں پانچ سینٹی گریڈ اضافہ ہو گا تو ان نایاب اقسام کے لئے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔''
جانداروں کی نایاب اقسام کے نابود ہونے کے ساتھ ہی جنگلات بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر نمبیا کے Namib صحرا میں بالخصوص Quiver نامی درخت ، اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سن 2001 ء میں آنے والی خشک سالی کے نتیجے میں درختوں کی یہ قسم پہلے ہی کافی حد تک ختم ہو چکی ہے۔
IUCN کا کہنا ہے کہ اگر ماحولیاتی بتدریج واقع ہو تو ان جانداروں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے لیکن بشریاتی ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار کافی تیز ہے۔ وینڈی فوڈن کہتی ہیں: '' جاندار مطابقت پیدا کر سکتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس وقت وہ ختم ہو چکے ہوتے۔ لیکن اس کے لئے ماحول میں تبدیلی کی رفتار آہستہ ہونی چاہئے۔ ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہےاور اگر ہماری حکومتیں ماحولیاتی تبیدیلیوں کے حوالے سے مضبوط اور پائیدار اہداف مقرر کرتی ہیں تو ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار میں کمی لا سکتے ہیں۔ تاکہ جاندروں کی یہ اقسام بچائی جا سکیں۔''
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان