1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیاں: ڈِیل کا مسودہ تیار

امجد علی13 فروری 2015

سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں تقریباً دو سو ممالک کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اُس مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے، جو اس سال کے آخر میں کسی حتمی معاہدے کے لیے ہونے والے مذاکرات کی بنیاد بنے گا۔

تصویر: DW/M. Krishnan

چھیاسی صفحات پر مشتمل اس مسودے میں زمینی درجہٴ حرارت میں اضافے کو روکنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار کو کم کرنے کے سلسلے میں مختلف امکانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً اس مسودے میں ایک جگہ 2050ء تک فضا میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج بتدریج ختم ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق سیکریٹیریٹ کی سربراہ کرسٹیانا فگیریس نے مذاکرات کی بنیاد بننے والے اور اڑتیس صفحات پر مشتمل ایک سابقہ دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ نیا مسودہ ’کچھ طویل ہو گیا ہے لیکن اب تمام ممالک ایک دوسرے کے مؤقف سے مکمل طور پر آگاہ ہو گئے ہیں‘۔ ساتھ ہی فگیریس نے یہ بھی کہا کہ اس طویل عبارت کے بعد جون میں ہونے والا اگلا سیشن ’کچھ مشکل صورت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے‘۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے اس امر کو لازمی قرار دے رکھا تھا کہ مذاکرات کار اس سال (2015ء) نومبر میں پیرس میں ہونے والی سربراہ کانفرنس سے چھ مہینے پہلے کسی باقاعدہ متن پر متفق ہو جائیں۔

اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق سیکریٹیریٹ کی سربراہ کرسٹیانا فگیریستصویر: picture-alliance/dpa

جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں ماحول کے لیے ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا بوجھ برابر برابر بانٹنے کے سلسلے میں مختلف مفادات کی حامل ریاستوں کے درمیان بات چیت جزوی طور پر نزاعی نوعیت کی بھی رہی۔ ان مذاکرات میں ایک جانب چین اور امریکا جیسے ممالک کے مفادات تھے تو دوسری طرف اوپیک یا پھر افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ممالک کے۔ اس کے باوجود بات چیت کا ماحول مثبت رہا، جسے سبھی شرکاء نے سراہا۔

یورپی یونین کا کہنا تھا کہ مذاکرات کاروں کو اس مسودے کو واضح اور جامع شکل دینے کا مشکل کام ابھی سے شروع کر دینا چاہیے تھا۔ یورپی کمیشن کے وفد کی سربراہ ایلینا بردرام نے کہا، ’ہم نے پیشرفت کا ایک موقع گنوا دیا ہے‘۔

ماحول کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس مسودے میں تمام تر نقطہ ہائے نظر کو شامل کیا گیا ہے، حتیٰ کہ بولیویا کی جانب سے پیش کیے گئے اس طرح کے مطالبے کو بھی اس مسودے کا حصہ بنایا گیا ہے کہ جو ممالک وعدوں کو عملی شکل دینے میں ناکام رہیں، اُن کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انٹرنیشنل کلائمیٹ جسٹس ٹریبیونل بنایا جائے۔

کلائمیٹ جسٹس پروگرام کی جولی اَین رچرڈز نے کہا کہ ’جنیوا میں طے پانے والی تمام باتوں نے پیرس میں کامیابی کی راہ ہموار کر دی ہے‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ جنیوا میں ہونے والی بات چیت کی فضا اسی نوعیت کے اُن دیگر مذاکرات سے بالکل مختلف تھی، جہاں قدم قدم پر رکاوٹیں نظر آتی ہیں اور بات بڑی مشکل ہی سے آگے بڑھتی ہے۔

واضح رہے کہ جب سے زمینی درجہٴ حرارت کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، 2014ء گرم ترین سال تھا۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سائنسدانوں کے ایک پینل کے خیال میں انسانی عوامل کے نتیجے میں عمل میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیاں اب واضح طور پر نظر آنے لگی ہیں اور اس امر کا اندازہ انتہائی زیادہ گرمی، زیادہ بارشوں اور گلیشیئرز پگھلنے کے نتیجے میں سمندری پانی کی مسلسل بلند ہوتی ہوئی سطح سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔

ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک میں کلائمیٹ پروگرام کی سربراہ جینیفر مورگن نے کہا کہ ’2015ء میں ماحولیات کے حوالے سے مذاکرات اچھے انداز میں شروع ہو چکے ہیں لیکن ابھی (ٹھوس نتائج کے لیے) کافی سخت محنت کرنا پڑے گی‘۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں