1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے متعلق بون میں عالمی اجلاس

4 مئی 2013

جرمنی کے شہر بون میں دنیا کے 160 ممالک کے نمائندوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے ایک ہفتے تک نئے اور لچکدار طریقوں پر غور کیا۔ کانفرنس میں کسی پیش رفت کا عندیہ نہیں دیا گیا۔

تصویر: Fotolia/MasterLu

کل جمعے کا دن جرمن شہر بون میں واقع اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق ادارے کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کا آخری دن تھا۔ اجلاس میں کئی نکات پر غور کیا گیا لیکن کسی پیش رفت کا امکان نہیں پیدا ہو سکا۔ اس مناسبت سے مزید غور و خوص اب جون میں ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔ بون میں ختم ہونے والے اجلاس کا ایک موضوع ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین سبز مکانی گیسوں کے اخراج کے حوالے سے مالی معاملات پر موجود اختلافات کو دور کرنا تھا۔ اس میںڈ بھی کوئی بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والا یہ اجلاس 1997ء کے کیوٹو معاہدے کی جگہ لینے والے نئے متوقع عالمی معاہدے کے حصول کی کوششوں کا حصہ تھا۔

اب تک ہونے والے ایسے اجلاسوں میں اس پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا کو ترقی یافتہ ممالک سبزمکانی گیسوں کے اخراج سے عالمی درجہء حرارت میں ہونے والے اضافے کے غرب ممالک کو کس طور پر مالی راحت دے سکتے ہیں۔ اس معاملے پر بھی اجلاس میں کسی اتفاق ِ رائے کی صورت سامنے نہیں آئی۔

اجلاس میں کئی نکات پر غور کیا گیا لیکن کسی پیش رفت کا امکان نہیں پیدا ہو سکاتصویر: AP

اب دو برس بعد یعنی 2015ء میں فرانس کے شہر پیرس میں انہی معاملات پر وزارتی سطح کا اجلاس پلان کیا گیا ہے۔ امکاناً اس اعلیٰ سطحی اجلاس تک حکومتوں کے نمائندے کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائیں گے۔ امریکا اور چین دونوں ہی نے ابھی تک کیوٹو معاہدے کی توثیق نہیں کی۔ واشنگٹن کا موقف ہے کہ ترقی پذیر ممالک پر بھی ان گیسوں کے اخراج کے حوالے سے قدغن لگائی جائے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلییوں کے بون میں واقع ادارے کے مطابق مندوبین اس بات پر متفق تھے کہ اگر آنے والے وقت میں سائنسی شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیلاب، خشک سالی اور سطح سمندر کی بلندی کے حوالے سے صورتحال بگڑ رہی ہے تو مذاکرات کے مزید ادوار کیے بغیر ہی کاربن گیسوں کے اخراج کے حوالے سے لچکدار عالمی معاہدہ کرلینا چاہیے۔ یہ کیوٹو پروٹوکول سے خاصا مختلف ہوگا، جو کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ 35 ممالک کو اس بات کا پابند کرے گا کہ وہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج کو دی گئی مہلت کے دوران کم کر دیں۔

اقوام متحدہ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے دفتر کی سربراہ کرسٹینا فیگیوریس نے بتایا کہ 2015ء میں معاہدہ یقینی ہے اور اس معاملے کو سردخانے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی برادری نے 2010ء میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ عالمی سطح پر درجہ ء حرارت میں اضافے کو کنٹرول میں رکھا جائے گا تاہم اس بابت کئی ممالک ابھی بھی مقرر کردہ ٹارگٹ سے دور ہیں۔

(sks/ah(Reuuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں