پولش کوہ پیماؤں کی چودہ رکنی ٹیم موسمِ سرما میں دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ’کے ٹو‘ سر کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کرنا چاہتی تھی۔ تاہم سرد موسم کے باعث آٹھ ہزار میٹر بلند يہ پہاڑ اس مرتبہ بھی سر نہ کيا جا سکا۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ’آئس واریرز‘ نامی پولش کوہ پیماؤں کے گروپ نے مشکل موسمی حالات کے باعث کے ٹو کو سردی کے موسم میں سب سے پہلے سر کرنے کی مہم کے اختتام کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ قرا قرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع آٹھ ہزار چھ سو میٹر بلند چوٹی کے ٹو اس مرتبہ بھی موسمِ سرما میں عبور نہیں کی جاسکی۔
پولش گروپ میں شامل کوہ پیمائی کے ماہرین نے جمعے کے روز اسلام آباد پہنچ کر اپنی شکست کا اعلان کیا۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ کے مقابلے میں کے ٹو کو موسمِ سرما میں عبور کرنا زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پولش کوہ پیماؤں کی ٹیم نے بتایا کہ ان کی یہ مہنگی ترین مہم آغاز سے ہی صحیح اور واضح راستوں کا تعین نہیں کر سکی تھی۔ سرد موسم کے سبب گروپ میں ديگر معاملات پر بھی اتفاقِ رائے نہیں تھا۔ کوہ پیماؤں کی آئس واریئر ٹیم کے سربراہ کرجسٹوف ویےلسکی کا مزید کہنا تھا کہ وقت گزرتا گیا اور بالآخر مہم کو ختم کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
'وحشی پہاڑ' کے نام سے مشہور 'کے ٹو' کو دنیا کا مشکل ترین پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔ کے ٹو کی اونچائی آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر ہے۔ تکنیکی اعتبار سے بھی کے ٹو پر کوہ پیمائی ایک مشکل عمل ہے۔ شمالی ہمالیہ کے اوپر ہوا کا دباؤ بہت تیز ہوتا ہے، جس کی وجہ سے طیاروں کو پرواز کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔
اڑسٹھ سالہ پولش کوہ پیما ویے لیسکی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’کے ٹو سب سے زیادہ مشکل ہے، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں، اور کے ٹو پر بدترین موسم ہوتا ہے۔‘ ویے لیسکی نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ،’چونکہ وہ آئس واریئرز ہیں تو وہ ضرور واپس آئیں گے۔ تاہم کے ٹو کو سر کرنے کے لیے دنیا کے بہترین کوہ پیماؤں کو بھی قسمت کا ساتھ چاہیے۔‘
پاک چین سرحد پر واقع اس پہاڑ کو سن 1954 میں پہلی مرتبہ سر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد صرف تین سو چھ کوہ پیما کے ٹو کو سر چکے ہیں۔ تاہم اس وحشی پہاڑ کو عبور کرنے کی کوشش میں اسی کوہ پیما اپنی جان گوا چکے ہیں۔
پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے مشکل اور کٹھن چوٹی سر کر لی
پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کوہ پیماؤں کی ٹیم نے گلگت بلتستان کی شمشال وادی کی ایک بلند اور مشکل چوٹی کو سر کیا ہے۔ اس ٹیم کا مقصد خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا اور انہیں کٹھن کھیلوں کی طرف راغب کرنا ہے۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین کوہ پیما
خواتین کوہ پیماؤں کی اس مہم جوئی کا اعلان پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کی جانب سے سوشل میڈیا پرکیا گیا تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس مہم کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ جسمانی فٹنس کی بنیاد پر چارخواتین کو اس ٹیم کا حصہ بننے کے لیے چنا گیا۔ ماؤنٹ ایورسٹ، کے ٹو سمیت دنیا کے سات براعظموں کے سات بلند ترین پہاڑ سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اس مہم جوئی کی سربراہی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا
اس ٹیم میں امریکی اور ناروے کی خواتین کوہ پیما بھی شامل تھیں۔ پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق ان کی شمولیت کا مقصد پاکستانی اور بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے درمیان صلاحیتوں اور معلومات کا تبادلہ تھا۔ خواتین کی اس ٹیم نے شمشال گاؤں کی گوجریو وادی میں ایک کٹھن اور پانچ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ’ بوئیسوم پاس‘ کو سر کیا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت
کوہ پیمائی کے پہلے دن شمشال گاؤں سے خواتین نے پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت طے کی۔ ٹیم نے پہلا قیام سطح سمندر سے 4100 میٹر بلند ایک مقام پر کیا۔ یہاں ایک دن قیام کے بعد اس ٹیم نے سطح سمندر سے 4700 میٹر بلند مقام تک کوہ پیمائی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خراب موسم اور کٹھن راستے
خراب موسم اور کٹھن راستے کی وجہ سے کچھ خواتین زخمی بھی ہوئیں اور آکسیجن کی کمی کے باعث کچھ خواتین کو سانس لینے میں دقت کا سامنا رہا۔ اس باعث یہ خواتین مزید کوپیمائی جاری نہ رکھ سکیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ
بالآخر ٹیم کی چار ارکان بسمہ، کومل، ڈاکٹر سیو اور ثمینہ بیگ نے سطح سمندر سے پانچ ہزار چھ سو میٹر بلند پہاڑی کو سر کر لیا۔ اس مقام پر درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین سخت کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق خواتین کوہ پیماؤں کی اس ٹیم نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کوہ پیمائی جیسے سخت کھیل میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستان میں اسپورٹس معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے شریک بانی مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اور ان کی بہن ثمنیہ بیگ نوجوانوں، خصوصی طور پر لڑکیوں کی کھیلوں میں شمولیت کو بڑھانا چاہتے تھے اور اسی لیے ’پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ‘ کو قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں اسپورٹس ایک معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی سوچ اور خیالات کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین کے لیے کم مواقع
مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہمارے معاشرے میں گھروں سے باہر، خصوصی طور پر کھیلوں کے لیے بنائے گٗئے میدانوں میں لڑکیوں کو بہت کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ خواتین کوہ پیمائی کی اس مہم کے ذریعے ہم نے خواتین میں خود اعتمادی اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔