موسولینی کے بھائی کے نام پر پارک؟ وزیر کو مستعفی ہونا پڑ گیا
27 اگست 2021
اٹلی میں ایک وزیر کو ایک پارک کا نام ماضی کے ڈکٹیٹر بینیٹو موسولینی کے بھائی آرنالڈو کے نام پر رکھنے کی تجویز دینے پر مستعفی ہونا پڑ گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران بینیٹو موسولینی نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر کا حلیف تھا۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے ستائیس اگست کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم ماریو دراگی کی کابینہ کے جونیئر وزیر کلاؤڈیو دُوریگون اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ ان کے انتخابی حلقے اور ملکی دارالحکومت روم سے جنوب کی طرف واقع شہر لاٹینا میں واقع ایک پارک کا نام بدل کر آرنالڈو موسولینی کے نام پر رکھ دیا جائے۔
بینیٹو موسولینی کا معتمد آرنالڈو موسولینی
دراگی حکومت میں معیشت اور خزانے کے جونیئر وزیر کلاؤڈیو دُوریگون نے اپنی تجویز میں کہا تھا کہ 1922 سے لے کر 1943 تک اٹلی پر حکومت کرنے والے فاشسٹ ڈکیٹر بینیٹو موسولینی کے بھائی آرنالڈو ایک صحافی اور ماہر زراعت تھے اور لاٹینا کے قصبے میں ایک مشہور پارک کا نام بدل کر آرنالڈو موسولینی کے نام پر رکھا جانا چاہیے۔
مگر جس بات پر اپنی تجویز میں جونیئر وزیر دُوریگون نے کوئی زور نہیں دیا تھا، وہ یہ تھی کہ آرنالڈو موسولینی اپنے بھائی بینیٹو موسولینی کے بہت قریبی معتمد بھی تھے۔
انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کی طرف سے حمایت
کلاؤڈیو دُوریگون کا تعلق اٹلی میں انتہائی دائیں بازو کی لیگ نامی عوامیت پسند سیاسی جماعت سے ہے۔ ان کی اس متنازعہ تجویز کی شروع میں لیگ پارٹی اور اس کے مرکزی رہنما ماتیو سالوینی نے بھی حمایت کی تھی۔ سالوینی کی پارٹی موجودہ وزیر اعظم دراگی کی متحدہ قومی حکومت میں شامل جاعتوں میں سے ایک ہے۔
لیگ پارٹی گزشتہ کئی مہینوں سے خود کو انتہائی دائیں بازو کی ایک پاپولسٹ جماعت کے بجائے ایک اعتدال پسند پارٹی کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں میں ہے۔
غلطی کا اعتراف
اٹلی میں خزانے اور معیشت کے جونیئر وزیر دُوریگون کی تجویز اتنی غیر متوقع تھی کہ ملک بھر میں اس پر شدید تنقید شروع ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ خود ان کی اپنی جماعت کے کئی رہنما بھی ان پر تنقید کرنے لگے تھے۔
اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ دُوریگون کو اپنے وزارتی عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ استعفیٰ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھ سے لاٹینا میں ایک پارک کا نام بدل دینے کی تجویز کے حوالے سے غلطی ہوئی۔ لیکن میں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں نہ تو کوئی فاشسٹ ہوں اور نہ کبھی فاشسٹ رہا ہوں۔‘‘
اشتہار
متنازعہ تجویز کی وضاحت
کلاؤڈیو دُوریگون 2018ء سے اطالوی پارلیمان کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ جب ان کی جماعت موجودہ مخلوط حکومت میں شامل ہوئی، تو انہیں خزانے اور معیشت کا جونیئر وزیر بنا دیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنی متنازعہ تجویز کے حق میں دلیل یہ دی تھی کہ وہ لاٹینا میں پارک کا نام بدل کر موسولینی خاندان کے لیے اظہار عقیدت نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ مقصد اس علاقے کی تاریخی اہمیت کو سامنے لانا تھا۔
اٹلی میں عوامیت پسند جماعتوں لیگ اور فائیو اسٹار موومنٹ کے درمیان اتحادی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کی ناکامی کے بعد خدشات ہیں کہ اٹلی دوبارہ انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ROPI
کوٹریلی، عبوری وزیراعظم
کارلو کوٹریلی اٹلی کے عبوری وزیراعظم ہیں، جنہیں ممکنہ عام انتخابات کی جانب بڑھتے ملک کی قیادت کرنا ہو گی۔ مارچ میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد دو عوامیت پسند جماعتوں کے درمیان اتحادی حکومت کے لیے جاری مذاکرات کی ناکامی اور کابینہ کے لیے تجویز کردہ متنازعہ وزراء کی صدر سے توثیق میں ناکامی کے بعد یہ بحران گہرا ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/S. Lore
کونتے، ناتجربے کاری نے کہیں کا نہ چھوڑا
گیوسپے کونتے، قانون کے پروفیسر اور سیاسی طور پر غیرمعروف شخصیت تھے، انہیں لیگ اور فائیواسٹار موومنٹ نے مشترکہ طور پر وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا، تاہم کابینہ کے مجوزہ وزراء کو بلاک کر دینے پر انہیں یہ دوڑ چھوڑنا پڑی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lore
ماتریلیا، آخری بات صدر کی
صدر سیرگیو ماتیریلا کے مواخذے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں، انہوں نے عوامیت پسند اتحاد کی حکومت قائم ہونے کا راستہ روکا ہے۔ انہوں نے اس اتحاد کی جانب سے وزیرخزانہ کے عہدے کے لیے پاؤلو ساوونا کا نام لے کر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ یورو کے ناقد ہیں۔ عوامیت پسند جماعتیں یورپی یونین کی مخالف ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ساوونا، یورو کے سخت ترین ناقد
ماہر اقتصادیات پاؤلو ساوونا، جنہیں عوامیت پسند اتحاد کی جانب سے وزارت خزانہ کا قلم دان سونپا جا رہا تھا، یورو کے شدید مخالف ہیں اور اسے ’جرمن پنجرہ‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ضرورت پڑے تو اٹلی کو ’سنگل کرنسی‘ مارکیٹ چھوڑ دینا چاہیے۔ 81 سالہ ساوونا کو بہت سے اطالوی قانون کی سازوں کی حمایت بھی حاصل ہے، تاہم ان کی تقرری کو صدر کی جانب سے ویٹو کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Frustaci
ڈی مائیو، کٹوتیوں کے مخالف
مارچ میں عام انتخابات میں فائیو اسٹار پارٹی نے لوئیگی دی مائیو کی رہنمائی میں 32 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ کونتے کی کابینہ میں وزارتِ محنت کا قلم دان سونپا جانا تھا۔ وہ اس عہدے کے ذریعے یورپی یونین کے برخلاف اپنی جماعت کے ’بجٹ کٹوتیوں کے خاتمے کے منصوبے‘ کو عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے صدر کے مواخذے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Fabi
ماتیو سالوینی، کپتان
ماتیو سالوینی یورو اور مہاجرین مخالف جماعت ’لیگ‘ کے قائد ہیں۔ مارچ کے انتخابات میں ان کی جماعت کو 17 فیصد ووٹ ملے۔ سالوینی یورپی پارلیمان کے رکن تو رہ چکے ہیں، تاہم انہیں یا ان کی جماعت کو حکومت یا انتظام چلانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ سالوینی نئی حکومت میں وزارت داخلہ کا قلم دان چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Di Meo
بیرلسکونی، کہاں گئے؟
سابق وزیراعظم سیلویو بیرلسکونی اور ان کی جماعت فورزا اٹالیا لیگ سمیت چار جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، تاہم بعد میں لیگ فائیواسٹار پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت سازی میں مصروف ہو گئی، جس پر بیرلسکونی نے افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ’ذمہ داری اور تحمل‘ کے ساتھ اپوزیشن کا کردار نبھانا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANSA/E. Ferrari
7 تصاویر1 | 7
اس پارک کی خاص بات یہ ہے کہ یہ لاٹینا اور اس کے ارد گرد کے نشیبی خطے میں 1930 کی دہائی میں وسیع تر دلدلی زمین کو صاف کر کے بنایا گیا تھا۔ اسی لیے یہ منصوبہ موسولینی حکومت کے سب سے بڑے عوامی تعمیراتی منصوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
لاٹینا کا پارک اس وقت دو مقتول ججوں سے موسوم
کلاؤڈیو دُوریگون نے لاٹینا کے جس پارک کا نام آرنالڈو موسولینی پارک رکھنے کی تجویز دی تھی، وہ 2017ء سے دو ایسے معروف اطالوی ججوں سے موسوم ہے، جنہیں قتل کر دیا گیا تھا۔
پاؤلو بورسیلینو اور جیوانی فالکونے نامی یہ دونوں جج اطالوی مافیا گروپوں کے خلاف اپنے عدالتی فیصلوں کی وجہ سے بہت شہرت اختیار کر گئے تھے۔ بعد ازاں انہیں قتل کر دیا گیا تھا، جس کا سبب بظاہر ان کے عدالتی فیصلے ہی بنے تھے۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
ماتیو سالوینی کا بیان
اپنی جماعت کے اس وزیر کی طرف سے استعفے کے اعلان کے بعد لیگ پارٹی کے سربراہ ماتیو سالوینی نے ایک بیان میں کلاؤڈیو دُوریگون کی بطور جونیئر وزیر خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
سالوینی نے اس بیان میں کہا، ''وہ اٹلی اور لیگ پارٹی کے لیے اپنی محبت کی وجہ سے مستعفی ہوئے ہیں اور اس لیے بھی کہ ان کے ملکی کابینہ میں رہنے کی وجہ سے موجودہ حکومت کی کارکردگی سست نہ ہو جائے۔‘‘
م م / ش ح (روئٹرز، اے ایف پی)
چارلی چپلن کی فلم ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کے 75 سال
چارلی چپلن کی 1940ء کی اس فلم کا موضوع اس دور کے عالمی سیاسی حالات تھے۔ فلم بینوں نے ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کی پذیرائی کی، نازی سوشلسٹوں نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ چارلی کا فن اب ایک ضخیم باتصویر کتاب کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
75 سال پہلے پریمیئر
چارلی چپلن کی فلم ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ آج بھی جرمنی کے نازی سوشلسٹ دور کے پس منظر کے حوالے سے ایک اہم اور انتہائی مزاحیہ فلم تصور کی جاتی ہے۔ چارلی نے طنز و مزاح کا سہارا لیتے ہوئے انتہائی مؤثر انداز میں ہٹلر کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا تھا۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
جانوروں کو کرتب سکھانے والا
چارلی چپلن کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’دی چارلی چپلن آرکائیو‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی ہے، جس میں چپلن کے کیریئر کی اہم ترین فلموں میں شمار ہونے والی ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کتاب میں چپلن کی نادر و نایاب تصاویر شامل کی گئی ہیں، مثلاً یہ تصویر فلم ’دی سرکس‘ سے لی گئی ہے۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
مزاحیہ اور المیہ کردار ساتھ ساتھ
چپلن کے فن کے کئی اسرار و رموز میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کی طرح اپنی ابتدائی دور کی اور بعد کی فلموں میں بھی اپنے کردار کے طربیہ اور المیہ پہلوؤں کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیتے تھے۔ بے انتہا کامیابی سے ہمکنار ہونے والی فلم ’دی گولڈ رَش‘ میں بظاہر ایک شخص بھوک سے مر رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس فلم میں فلم بینوں کے لیے ہنسی کا بہت سامان موجود ہے۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
ایک عالمی فنکار
تازہ تازہ شائع ہونے والی کتاب ’دی چارلی چپلن آرکائیو‘ سے پتہ چلتا ہے کہ چارلی چپلن کی اُن فلموں کی تیاری کے دوران کتنی محنت کی گئی ہوتی تھی، جو بعد میں بہت آسانی کے ساتھ اور بے ساختہ بنی ہوئی لگتی تھیں۔ اس کتاب میں چپلن کی نجی زندگی پر بھی تفصیلات موجود ہیں۔ اس تصویر میں چارلی چپلن اپنی ساتھی اداکارہ پاؤلیٹ گوڈارڈ کے ساتھ نظر آ رہے ہیں، جس کے ساتھ بعد میں چپلن نے شادی کر لی۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
بیس ویں صدی کے با اثر ترین فنکاروں میں سے ایک
چارلی چپلن کو دنیا بھر میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ فلموں کے ساتھ ساتھ اُس کی تصاویر، کتابیں اور کارٹون بھی لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ چارلی چپلن کا کردار ’ٹریمپ‘ بیس ویں صدی کی ثقافتی تاریخ کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
امارت اور غربت
’ٹریمپ‘ یا ایک آوارہ اور آزاد منش انسان کا کردار شروع ہی سے چارلی چپلن کے پسندیدہ ترین فلمی کرداروں میں سے ایک تھا۔ چپلن نے ایک بار کہا تھا:’’ایک بات میں جانتا ہوں: کہ غربت نے مجھے کچھ سکھایا نہیں بلکہ اس کے برعکس اُس نے میرے تصورات کو توڑ مروڑ اور بگاڑ دیا اور میرے سامنے زندگی کا ایک غلط تصور پیش کیا۔‘‘ چپلن فلموں کے ذریعے ہرگز یہ ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے کہ غربت یا سادگی کوئی بہت اچھی چیز ہیں۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
خاموش فلموں سے بولتی فلموں تک
چارلی چپلن نے اپنے کیریئر کا آغاز خاموش فلموں سے کیا تھا۔ اُس دور میں وہ بلاشبہ دنیا کے مشہور ترین فنکار تھے۔ بولتی فلموں کا دور اُن کے لیے مشکلات اور مسائل لے کر آیا۔ ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ میں الفاظ اور آواز کا انتخاب بلاشبہ بہت عمدہ تھا لیکن زیادہ تر بولتی فلموں میں اُنہیں یہ کامایبی نہ مل سکی۔ یہ تصویر بعد میں تنقید کا نشانہ بننے والی فلم ’موسیو وَیردُو‘ کی شوٹنگ کے دوران اُتاری گئی۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
حسن کی تلاش میں
چپلن نے اکثر اس بات پر زور دیا کہ دراصل وہ ہمیشہ حسن کی تلاش میں رہے۔ اسی لیے اس نئی کتاب کے پبلشر نے اپنے دیپباچے کو بھی ’حسن کی تلاش میں‘ کا نام دیا ہے۔ ’ٹاشن‘ نامی جرمن اشاعتی ادارے نے یہ کتاب انگریزی زبان میں شائع کی ہے۔ اس کتاب کو 2015ء کی خوبصورت ترین فلمی کتاب قرار دیا جا رہا ہے۔