جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے محققیق کے مطابق موسیقی بزرگ شہریوں کی زندگیوں اور ان کی دماغی صحت کی بہتری میں کردار ادا کرتی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ سے خصوصی بات چیت کی۔
اشتہار
موسیقی کے بزرگ شہریوں کے دماغ پر اثرات اور اس کے نتیجے میں ان کے معیارِ زندگی میں بہتری کے موضوع پر جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے محققین نے ایک مشترکہ تحقیق کی۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد جو کوئی آلہء موسیقی بجاتے ہیں، انہوں نے عموماﹰ اسے بچپن میں سیکھا ہوتا ہے۔ تاہم دماغ پر تحقیق کرنے والے جرمن اور سوئس سائنس دانوں کے مطابق بزرگ افراد کو موسیقی کی تربیت دینے سے ان کی زندگیوں میں گراں قدر بہتری دیکھی گئی ہے۔ دماغی صحت پر تحقیق کرنے والے ان محققین کا تعلق جرمن شہر ہینوور اور سوئس شہر جنیوا سے تھا۔
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
9 تصاویر1 | 9
اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ اور میوزیکل نیوروفزیولوجسٹ ایکارٹٹ الٹنمؤلر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’اس نئی تحقیق میں بزرگ شہریوں کے معیار زندگی پر موسیقی کے اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہ توجہ دلانا ہے کہ معمر افراد کو کس طرح موسیقی کے ذریعے زندگی کی رمق دی جا سکتی ہے اور وہ کس طرح موسیقی سیکھ کر اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔‘‘
اس تحقیق میں 64 تا 76 برس کی عمروں کے سو سے زائد افراد کو شامل کیا گیا اور انہيں پیانو بجانے کی تربیت یا نظری موسیقی کی تعلیم دی گئی۔ اس تحقیق میں فقط ان معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا، جن کا زندگی میں کبھی موسیقی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ یہ تحقیق موسم گرما تک جاری رہی گی۔
’عورت کی مشقت کی نہ اُجرت نہ ہی گنتی‘
11:20
اس تحقیق کے متوقع نتائج بتاتے ہوئے الٹنمؤلر نے کہا کہ اس سے ان معمر افراد کے ذہنی تناؤ میں کمی اور صحت میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس تحقیق میں یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ موسیقی کی وجہ سے ان افراد کی یادداشت، ذہنی گرفت اور سوچوں پر کیا فرق پڑتا ہے۔
الٹنمؤلر نے مزید بتایا کہ اس سے قبل بیس تا تیس برس کے افراد کا مطالعہ کیا گیا تھا اور اس سے معلوم ہوا تھا کہ فقط پیانو کی مشق سے ہی ان نوجوانوں میں سننے اور حرکت کرنے کی حسیات میں نمایاں اضافہ پیدا ہوا تھا جب کہ یہ اضافہ بعد میں بھی کئی ہفتوں تک قائم رہا۔ ’’اب ہم اپنی اُسی تحقیق کو ان معمر افراد پر بھی آزما رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان سے ان بزرگوں کی ذہنی قوت میں اضافہ ہو گا۔‘‘