موصل بد ترین انسانی بحران کے دہانے پر
18 اپریل 2017![Irak UNO: Fast eine halbe Million Zivilisten vor Militäroffensive auf Mossul geflohen](https://static.dw.com/image/38456123_800.webp)
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ موصل کی لڑائی کے دوران شہر کے قدیمی حصے میں پھنسے ہوئے شہریوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے جبکہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیر اثر موصل کے مغربی حصے اور اس کے گرد و نواح میں موجود شہریوں کی تعداد بھی پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
اقوام متحدہ کی عراق کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی رابطہ کار لیزے گراند نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’اگر ان علاقوں کا محاصرہ کیا جاتا ہے، تو ہزاروں افراد کی اشیائے خوراک تک رسائی نہیں ہو گی اور یہ بہت بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کے بقول ایسی صورت میں ایک ایسے انسانی بحران کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جو اس تنازعے کا اب تک کا بدترین بحران ہو۔‘‘
موصل شمالی عراق کا سب سے بڑا شہر ہے، جس پر انتہا پسند تنظیم داعش نے 2014ء کے وسط میں قبضہ کیا تھا۔ عراقی فوج نے گزشتہ برس اکتوبر میں اس شہر کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کی کارروائی شروع کی تھی، جس دوران موصل کے زیادہ تر حصے سے اس تنظیم کے جنگجوؤں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔
لیزے گراند نے کہا کہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے، ’’ہمیں چار لاکھ کے قریب انسانی زندگیوں کی فکر ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے گواہوں نے بتایا ہے کہ موصل سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے بہت سے افراد کو گولی مار دی گئی۔ یہ سب کچھ بہت خوفناک ہے۔‘‘ موصل کے قدیمی حصے سے کسی طرح باہر نکلنے میں کامیاب ہونے والے افراد نے بتایا کہ وہاں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔