’کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم ہو سکتا ہے‘
4 مارچ 2017عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈےکے مطابق عراقی شہر موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی ہیومینیٹیرین قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق لیزا گرانڈےکا کہنا تھا، ’’اگر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ انسانی حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی ایک سخت خلاف ورزی ہے، اس بات سے قطع نظر کے ان حملوں کا نشانہ کون ہیں یا حملوں کے متاثرین کون ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کی انسانی بنیادوں پر معاملات کی عراق میں سربراہ لیزا گرانڈے کی طرف سے یہ بیان ان رپورٹس کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ موصل میں جاری جنگ کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں۔ موصل عراق میں دہشت پسند تنظیم داعش کا آخری مضبوط مرکز ہے۔
جعمہ تین مارچ کو بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی (ICRC) کی طرف سے کہا گیا تھا کہ موصل کے قریب ایک ہسپتال میں سات ایسے مریض لائے گئے، جن کی علامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زہریلے کیمیائی مادے سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم یہ بات واضح نہیں تھی کہ ان ہتھیاروں کا استعمال کس جانب سے ہوا ہے۔
گرانڈے کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ہر ایک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اس مبینہ حملے کی تحقیقات کے لیے متعلقہ افراد کو فوری طور پر اس علاقے تک جانے کی اجازت دیں۔‘‘
19 فروری کو امریکی تعاون کے ساتھ عراقی فورسز نے داعش کو موصل کے مغربی حصے سے نکالنے کے لیے ایک بڑا آپریشن شروع کیا تھا۔ عراق میں داعش کے انتہائی مضبوط گڑھ رہنے والے موصل شہر کے مشرقی حصوں کا کنٹرول عراقی فورسز نے ایک ماہ قبل ہی حاصل کر لیا تھا۔