موصل کا کتاب میلہ، ثقافت کے اظہار کا ایک بڑا تہوار
9 ستمبر 2018
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کو گزشتہ برس داعش کے چنگل سے چھڑایا گیا تھا۔ اب اس کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ثقافتی سرگرمیوں میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
اشتہار
موصل میں اسی ویک اینڈ پر منعقد کیے گئے کتاب میلے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس فیسٹیول کے دوران ڈرامے بھی منعقد کیے گئے۔ مختلف فنکاروں نے موسیقی کی پرفارمنس سے شرکاء کو محظوظ کیا۔ موصل یونیورسٹی میں منعقد کی گئی اس ثقافتی تقریب میں ہزاروں کتابیں شائقین کے ذوق کے لیے سجائی گئی تھیں۔
یہ امر اہم ہے کہ یہ کتاب میلہ بنیادی طور پر یونیورسٹی کی لائبریری کی تعمیر نو کے سلسلے کا ایک قدم ہے۔ جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے موصل پر قبضے کے بعد اس لائبریری کی عمارت کو بارود کے ساتھ اڑا دیا تھا۔ عمارت کی تباہی کے ساتھ دو لاکھ سے زائد نایاب کتب بھی راکھ ہو گئی تھیں۔
موصل کے کتاب میلے میں عرب دنیا کے کئی پبلشر اپنی کتابوں کی تشہیر کے لیے موجود تھے۔ اس میلے میں قدیمی عرب روایت کی بازگشت بھی سنی گئی۔ اس روایت کے مطابق ’ مصری تحریر کرتے ہیں، لبنانی کتابیں چھاپتے ہیں اور عراقی پڑھتے ہیں‘۔ فیسٹیول میں شریک کئی افراد موصل کی داعش کے ہاتھوں بازیابی کو اپنے دوسرے جنم سے تعبیر کرتے ہیں۔
موصل کے ثقافتی ورثے کو داعش کے جہادیوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ شعراء کے مجسموں کو نابود کرنے کے ساتھ ساتھ جدید و قدیم مصنفین کی کتب کو جلا ڈالا گیا۔ جمالیاتی ذوق کے شاہکار برباد کر دیے گئے۔ موسیقی کے آلات چن چن کر توڑ پھوڑ دیے گئے۔ جہادیوں نے ثقافت سے جڑی ہر شے کو نابود کرنے کی کوشش کی۔
اُس دور میں موصل کے دانشور اپنی شناخت چھپاتے پھرتے تھے۔ موصل یونیورسٹی میں منعقدہ فیسٹول میں شعبہ انگلش کے پروفیسر علی البرُودی بھی ایسے بچ جانے والے دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ داعش کے دور میں وہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار مرتبہ مرتے تھے اور جیتے تھے۔ البرُودی نے شہر کی ثقافتی سرگرمیوں کی بحالی کے حوالے سے کہا کہ لوگوں میں پیدا شدہ خوف کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔
کتاب میلے میں شریک موصل یونیورسٹی کے فنون لطیفہ کے انسٹیٹیوٹ سے منسلک مروان طارق کا کہنا ہے کہ داعش کی شکست کے بعد اب صورت حال تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ طارق کے مطابق یوں تو ساری جامعہ تباہی کا شکار ہوئی تھی لیکن آرٹس انسٹیٹیوٹ کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ادارے میں موجود تمام آلاتِ موسیقی کے ساتھ ساتھ مصوری کے شاہکار، سنگتراشی کے نمونوں اور تاریخی مجسمے پوری طرح ریزہ ریزہ کر دیے گئے تھے۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘