موصل کی بازیابی سے کیا عراق میں قیام امن ہو جائے گا؟
عاطف بلوچ، روئٹرز
9 جولائی 2017
نو ماہ کی طویل عسکری مہم کے بعد بالآخر عراقی فورسز موصل شہر کو داعش کے جنگجوؤں سے آزاد کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ تاہم یہ سوال برقرار ہے کہ اس پیشرفت سے کیا عراق میں قیام امن ممکن ہو سکے گا؟
اشتہار
عراقی فوج نے کہا ہے کہ ملکی دستوں نے موصل کے قدیمی علاقے میں داعش کے جہادیوں کو شکست دے دی ہے جبکہ پسپائی کے شکار ان شدت پسندوں کو دریائے دجلہ کے قریبی علاقوں میں بھی زیر کر دیا جائے گا۔ امریکی فوج نے بھی کہا ہے کہ جلد ہی اس علاقے میں ان انتہا پسندوں کو مکمل طور پر شکست دے دی جائے گی۔ اس عسکری مہم میں عراقی فورسز کو امریکی عسکری اتحاد کا تعاون بھی حاصل ہے۔
داعش کے انتہائی اہم تصور کیے جانے والے گڑھ موصل میں عراقی فورسز کی کامیابی کو ایک اہم کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس محاذ پر جہادیوں کو شکست دینے کے علاوہ عراق میں قیام امن کئی دیگر عوامل سے بھی جڑا ہے۔ موصل میں داعش کی شکست کے ساتھ ہی عراق میں ایک عشرے سے بھی زائد عرصے سے جاری نسلی اور فرقہ وارانہ تضاد واضح ہونے لگا ہے۔ انہی اختلافات کے نتیجے میں عراق میں سلامتی کی صورتحال بگڑی تھی۔
موصل کی مکمل بازیابی کے نتیجے میں وہاں فعال عرب اور کرد جنگجوؤں میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کے مابین علاقائی تنازعات کی تاریخ پرانی ہے۔ ساتھ ہی طاقت کے حصول کی خاطر شعیہ اور سنی گروپوں میں ایک نئی رسہ کشی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد سے ہی اس عرب ملک میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم کوئی چھپی بات نہیں ہے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
صدام حسین کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عراق میں سنی حکومت کو ختم کر کے وہاں ایران نواز شیعہ حکومت قائم کر دی گئی تھی۔ اگرچہ عراق شعیہ اکثریتی آبادی والا ملک ہے تاہم وہاں کئی عشروں تک سنی اقلیت ہی اقتدار میں رہی۔ عراق میں داعش کے خلاف لڑائی میں ملک کے تمام گروہ نسلی اور فرقہ ورانہ تقسیم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہو گئے تھے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اب داعش کی شکست کے نتیجے میں صورتحال ایک مرتبہ پھر پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
بغداد حکومت کے سامنے سب سے اہم اور فوری حل طلب مسئلہ موصل کی بحالی اور تعمیر نو کا ہی ہو گا۔ امریکی عسکری اتحاد کی فضائی کارروائیوں اور زمینی لڑائی کے نتیجے میں یہ شہر تباہ و برباد ہو چکا ہے جبکہ ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ مغربی، عراقی اور کرد حکام اس بات سے پریشان ہیں کہ عراقی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا، جس کے تحت جنگ کے بعد کی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہو۔
جنگ کی بعد سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کی خاطر کرد ریجن نے اس تناظر میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی تھی، جس کے تحت عراقی حکومت اور امریکی عسکری اتحاد نے موصل کی قیادت کو اس شہر کی بحالی اور تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا تھی۔ تاہم ابھی تک اس کمیٹی کا ایک بھی اجلاس منعقد نہیں ہو سکا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے سابق وزیر خزانہ اور خارجہ حسین زیباری کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم حید العبادی اس معاملے کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں، ’’جب بھی ہم اس معاملے کو اٹھاتے ہیں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ جب تک فوجی آپریشن ختم نہیں ہو جاتا تب تک انتظار کریں۔‘‘ انہوں نے بغداد حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا ہے کہ وفاق آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہو چکا ہے۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔