موصل کی بازیابی کا آپریشن اور جرمنی میں دہشت گردی کے خطرات
31 اکتوبر 2016جرمنی کی داخلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو عراقی شہر موصل میں ہونے والی ممکنہ شکست کے بعد جرمنی میں جہادیوں کے حملوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ماسن نے اس مناسبت سے کہا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی صفوں میں شامل جرمن جہادی جب واپس وطن لوٹیں گے تو امکاناً وہ تخریبی راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
ماسن نے برلن حکومت کو خبردار کیا ہے کہ مہاجرین کی آبادکاری کے تناظر میں جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے افراد بھی مسلح حملوں میں شدت پیدا کر سکتے ہیں۔ ہانس گیورگ ماسن نے سرکاری ریڈیو ڈوئچے فُنک کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ جرمن حکام موصل کی بازیابی کے بعد پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہے اور جوابی حکمت عملی وقت پر مکمل کر لی جائے گی۔
ماسن کا خیال ہے کہ جہادی تنظیم کے یورپی کارکنوں سے سارے یورپ کی سلامتی کو شدید خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی تک بہت تھوڑی تعداد میں یورپی جہادیوں کی واپسی ہوئی ہے۔ موصل کی جنگ ختم ہونے کے بعد ہی اندازہ ہو گا کہ کتنے یورپی جہادی اپنے اپنے دیس کا رخ کرتے ہیں یا پھر وہ کسی نہ کسی طرح جہادی گروپ کے مرکز الرقہ پہنچنے کی کوشش میں ہوں گے۔
ماسن نے یہ بھی کہا کہ جرمن جہادیوں کے لیے عراق اور شام کے جنگی حالات کسی بھی طرح پرکشش نہیں ہو سکتے اور واپس آنے والے جہادی شکست اور ناکامی سے بھرے ہوں گے۔ ماسن کے مطابق یہی کیفیت اُن کو دہشت گردانہ حملوں کے لیے ترغیب دے گی تا کہ وہ ذہنی طور پر اپنی پسپائی کا بدلہ لیں سکیں۔
یہ امر اہم ہے کہ رواں برس سترہ اکتوبر سے عراقی فوج نے امریکی اتحاد کی مدد و تعاون کے علاوہ کرد پیش مرگہ فائٹرز کے ہمراہ موصل شہر کا قبضہ چھڑانے کی عسکری مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ عراقی فوج نے جنوب کی سمت سے چڑھائی کی ہے۔ مشرقی سمت سے کرد پیش مرگہ موصل کی جانب پیش قدمی کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موصل سے جہادیوں کے فرار کو روکنے کے لیے موصل کے شمال میں واقع تلعفر کے اسٹریٹیجیک شہر پر بھی ایران کی حمایت یافتہ بغداد حکومت کی حلیف شیعہ ملیشیا نے قبضے کا آپریشن شروع کر دیا ہے۔