مولانا شیرانی کا بیان: سیاسی حلقوں میں ہلچل
21 دسمبر 2020واضح رہے کہ مولانا شیرانی،جو ماضی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے ہیں، نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن، عمران خان کو سیلیکٹڈ کہتے ہیں لیکن مولانا خود سلیکٹڈ ہیں۔ مولانا شیرانی نے پی ڈی ایم پر بھی تنقید کے نشتر چلائے اور کہا کہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد اپنے مفادات کے لئے جمع ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نہ صرف یہ پانچ برس مکمل کرے گا بلکہ اگلے پانچ برس بھی اسی کے ہیں۔
مودی کا تعزیت نامہ نواز شریف کے نام بذریعہ مریم نواز
مولانا شیرانی کے بیان پر حکومتی حلقے بہت خوش نظر آتے ہیں اور ان کے خیال میں اپوزیشن کے لئے یہ ہت بڑا دھچکا ہے۔ تاہم جمعیت اور حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ مولانا شیرانی کے بیان یا ان کی مخالفت سے حزب اختلاف کو کوئی فرق نہیں پڑٰے گا۔ مولانا شیرانی کے حامیوں کے خیالات اس کے برعکس ہیں۔
کوئی فرق نہیں پڑے گا
جمعیت علماء اسلام ف کا کہنا ہے کہ مولانا شیرانی کی جمعیت میں کوئی اہمیت نہیں اور ان کے اس بیان سے جماعت کو فرق نہیں پڑے گا۔ مذہبی جماعت کی مرکزی شوری کے رکن جلال الدین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " مولانا شیرانی گزشتہ پانچ برسوں سے پارٹی میں غیر فعال تھے۔ اس وقت بھی ان کے پاس جمعیت کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بیان ریاستی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے دیا ہے لیکن اس سے جمعیت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چوبیس دسمبر کو جمعیت کا اجلاس ہے، جس میں شاید یہ معاملہ بھی زیر بحث ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات صحیح ہے کہ مولانا شیرانی کو پارٹی سے اعلانیہ نکالا نہیں گیا تھا۔ "ان کی حیثیت ایک کارکن جیسی ہے۔ شوکاز نوٹس اس کو دیا جاتا ہے، جس کے پاس کوئی اہم ذمہ داری ہو جیسا کہ حافظ حسین احمد کو دیا گیا لیکن میرے خیال میں ان کے جمعیت سے اب باقاعدہ اخراج کا مسئلہ اگلے اجلاس میں ممکنہ طور پر زیر بحث آسکتا ہے۔"
نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر اکرم بلوچ، جو پی ڈی ایم کے رہنما بھی ہے، بھی جلال الدین کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مولانا شیرانی کوئی اہم رہنما نہیں ہے۔ تاہم ان کے خیال میں ایسے عناصر کو اسٹیبلشمنٹ استعمال کر سکتی ہے۔ " اکرم بلوچ کا یہ بھی کہنا ہے، ''یہ امر اہم ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں کو منعقد کرنے میں جمعیت کا ایک اہم کردار ہے، اس کے کارکنان محنتی، نظریاتی اور بے لوث ہیں۔ وہ نظم و ضبط کے پابند بھی ہیں اور یہ بات کچھ عناصر کو پسند نہیں۔ تو کچھ عناصر حزب اختلاف میں تقسیم چاہتے ہیں لیکن شیرانی اپے بل بوتے پر صوبائی اسمبلی کا انتخاب بھی نہیں جیت سکتے، تو میرے خیال میں ان کے بیان سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔"
نواز شریف کو واپس لانے کے لیے حکومتی کوششیں شروع
اسٹیبلشمنٹ کا کھیل
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ طاقتور عناصر پی ڈی ایم کے جلسوں اور احتجاج سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ "میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کوشش کررہی ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں اختلافی آوازوں کو کھڑا کیا جائے کیونکہ وہ پی ڈی ایم اور ان کے قائدین کا ڈس کریڈٹ کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے، جو جماعتوں کے قائدین کے خلاف باتیں کریں لیکن ایک دو افراد کے اس طرح کی حرکتیں کرنے سے بڑی جماعتوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔"
اختلاف کا وقت اہم ہے
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ مولانا شیرانی اور مولانا فضل الرحمن کے ماضی میں بھی اختلافات رہے ہیں۔ "لیکن اس مرتبہ اختلاف کا وقت انتہائی اہم ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس کے صدر ہیں اور ایسے میں مولانا شیرانی کا بیان آنا پی ڈی ایم اور جمعیت کے لئے دھچکا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جمعیت بلوچستان نسبتا خودمختارانہ انداز میں کام کرتی ہے اور مولانا شیرانی کا بلوچستان جمعیت میں بہت اثر ورسوخ ہے۔ لہذا یہ اپوزیشن کے لئے ایک دھچکا تو ہے۔"
عمران خان اب این آر او مانگ رہے ہیں، مریم نواز
لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے بلوچستان میں اپوزیشن کے لئے پہلے ہی سے مشکلات تھیں اور اب اس بیان سے مولانا فضل الرحمن اور حزب اختلاف کے لئے مشکلات مزید بڑھیں گی۔ ''پہلے بلوچستان میں ثناء اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ نے ن لیگ کے خلاف بغاوت کی۔ اب مولانا شیرانی نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف محاذ کھول دیا ہے، جس سے حکومتی کیمپ میں شادیانے بج رہے ہیں۔ شیرانی کی میڈیا کوریج سے نہ صرف جمعیت کو نقصان ہوگا بلکہ یہ تاثر بھی جائے گا کہ پی ڈی ایم منقسم ہورہی ہے۔ اگر شیرانی کے لوگوں نے فضل الرحمن کے خلاف نیب سے تعاون شروع کر دیا تو مسائل جمیعت کے لئے بڑھ سکتے ہیں کیونکہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھا سکتا ہے۔‘‘