'میڈیا سے معافی مانگی لیکن خواتین سے نہیں‘
25 اپریل 2020گزشتہ روز پاکستانی وزیر اعظم نے کورونا وائرس کے باعث پیدا شدہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ٹیلی تھون کے ذریعے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔ اس پروگرام کے آخر میں پاکستان کے مشہور تبلیغی مولانا، طارق جمیل کو دعا کرانے کی دعوت دی گئی۔ طارق جمیل نے دعا سے قبل پاکستان کی صورت حال اور وبا سے بچنے کے بارے میں گفتگو بھی کی۔ اس دوران انہوں گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ میڈیا پر بہت زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے۔ انہوں نے خدائی عذاب کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے 'حیا‘ کو بھی موضوع بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں 'بے حیائی‘ زیادہ ہو چکی ہے۔ مولانا طارق جمیل نے یہ بھی کہا کہ 'عمران خان کو اجڑا ہوا چمن ملا ہے، وہ تنہا اسے کتنا بہتر کر سکیں گے‘۔
مولانا نے بتایا، ''مجھ سے خان صاحب نے بات کی تھی پہلی مرتبہ کہ میں چاہتا ہوں کہ میری یوتھ اللہ کے نبی کے ساتھ جڑے کیوں کہ جو ہمارے کالجز ہیں، یونیورسٹیز ہیں اور خاص طور پر جو ہمارے پرائیویٹ اسکول ہیں، یہ امت کو اور نوجوانوں کو اللہ رسول سے کاٹ رہے ہیں۔ یہ (عمران خان) پہلا شخص ہے جس کے لیے میرے دل سے دعا نکلی۔‘‘
مولانا طارق جمیل کی میڈیا سے معافی
گزشتہ شام پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے میڈیا کے بارے میں اپنے بیان کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے صحافیوں سے معافی مانگی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''میں اعتراف کرتا ہوں، جس کا مطلب ہی یہی ہے کہ میرا سرنڈر ہے۔ میں اپنی بات کی کوئی دلیل نہیں پیش کر رہا۔‘‘
پاکستان میں عمران خان کی حکومت آنے کے بعد سے ملکی میڈیا پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس تناظر میں مولانا طارق جمیل کے معافی مانگنے کے باوجود اس بیان کے بارے میں سوشل بحث کا سلسلہ جاری ہے۔
عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کارکن خاص طور پر مولانا طارق جمیل کے اس بیان کی تائید کرتے دکھائی دیے۔ دوسری جانب ملکی اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے مولانا کو آڑے ہاتھوں لیا۔
’مولانا، خواتین سے معافی کب مانگیں گے‘
طارق جمیل نے میڈیا سے تو معافی مانگ لی، تاہم انہوں نے اسی پروگرام میں میزبان کی جانب سے خواتین سے متعلق ان کے بیان کے بارے میں سوال پوچھے جانے کے باوجود معذرت نہ کی۔
سوشل میڈیا پر مرد صارفین مولانا کی حمایت کرتے دکھائی دیے۔ خواتین کے بارے میں طارق جمیل کے بیان کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے بہت زیادہ احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کی جانب سے تاہم مولانا کے اس بیان پر شدید تنقید کی گئی اور ان سے معافی مانگنے کے مطالبات بھی کیے گئے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ہی کی کابینہ میں شامل انسانی حقوق سے متعلق خاتون وزیر شیریں مزاری نے طارق جمیل کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا، ''کسی کی جانب سے کسی بھی بھیس میں یہ تاثر دینا کہ کووڈ انیس وبائی مرض خواتین کے مختصر آستین والا لباس پہننے یا نجی سکولوں و جامعات کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا نتیجہ ہے، بہت مضحکہ خیز ہے۔ اس سے وبائی امراض کے بارے میں کم علمی یا خواتین سے بیزار ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ بالکل ناقابل قبول۔‘‘
سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی خاتون صارفہ سعدیہ جاوید نے مولانا طارق جمیل کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے لکھا، ''طارق جمیل صاحب سے میڈیا نے گھٹنے ٹکوا لیے۔ مگر قوم اور خواتین کی توہین کا حساب کون لے گا۔‘‘
ناصر میمن نامی ایک صارف نے لکھا، ''کورونا عورتوں کی بے حیائی کی وجہ سے آتا ہے، لیکن اللہ کا کلام پڑھانے کے لیے بلا کر بچوں سے جسمانی زیادتی کرنے سے کچھ نہیں آنا اور تین سال کی معصوم بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے سے بھی کوئی وبا نہیں آتی، کیوں کہ یہ دو نیک کام باکردار مرد حضرات کرتے ہیں۔‘‘