1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مولانا طارق جمیل کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں، عمران خان

14 دسمبر 2020

پاکستان کے مشہور مذہبی رہنما مولانا طارق جمیل اور شوبز کی دنیا کی اسٹار اداکارہ ماہرہ خان نے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان دونوں شخصیات کے پرستار ان کی صحت یابی کے لیے دعا کر رہے ہیں۔

Kombibild - Mahira Khan und Tariq Jameel

مشہور مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ''گزشتہ کچھ ایام سے طبعیت ناساز تھی، ٹیسٹ کروانے پر کورونا پازیٹو آیا ہے، اطبّاء کے مشورے سے ہسپتال داخل ہو گیا ہوں، تمام محبین سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔‘‘ اس کے بعد پاکستان کی متعدد مشہور شخصیات نے مولانا طارق جمیل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور ان شخصیات میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔ ان کا ٹویٹر پر کہنا تھا کہ وہ مولانا طارق جمیل کی جلد از جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کی مشہور اداکارہ ماہرہ خان نے بھی سوشل میڈیا پر ہی بتایا کہ کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد وہ قرنطینہ میں جا رہی ہیں اور انہوں نے ان سب افراد کو بھی مطلع کر دیا ہے، جن سے گزشتہ چند ایام کے دوران ان کی ملاقات رہی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سب کچھ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔

انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ میں ماہرہ خان نے سب کو ماسک پہننے کی تلقین کی اور ساتھ ہی اپنے پرستاروں سے کہا کہ وہ انہیں اچھی فلمیں بھی تجویز کر سکتے ہیں۔

اداکارہ ماہرہ خان کی بھی پاکستان میں بہت بڑی فین فالوونگ ہے اور ان کے چاہنے والے بھی ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔

پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے اور کورونا مریضوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہفتے کے روز بھی پاکستان میں کم از کم بہتر افراد کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے اور اس طرح مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار تین سو ستر تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں کورونا ٹیسٹ کم کیے جا رہے ہیں اور ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب پاکستان نے کووڈ انیس ویکسن کی خریداری کے لیے فنڈز میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ قبل ازیں اس مقصد کے لیے ایک سو پچاس ملین ڈالر مختص کیے گئے تھے، جو اب بڑھا کر دو سو پچاس ملین ڈالر کر دیے گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں