اسلام آباد دھرنا ختم، احتجاج صوبوں میں منتقل کرنے کا اعلان
13 نومبر 2019اسلام آباد میں دھرنے کے شرکا سے خطاب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت کا خیال ہے کہ جب یہاں سے لوگ اٹھیں گے تو اس کے لیے آسانی ہوگی، لیکن اب ہماری تحریک اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا ملک میں اگلے دھرنے شہروں میں نہیں بلکہ قومی شاہراؤں پر ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں پوری قوم سے کہتا ہوں کہ وہ جہاں ہیں، اپنے حقوق کی لڑائی کے لیے باہر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک ناجائز حکومت براجمان ہے، جسے گھر جانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں نئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے دھرنے کے دوران اپنے کارکنوں کو نظم و ضبط قائم رکھنے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا اور انہیں آئندہ بھی پر امن رہنے کی تلقین کی۔
کوئٹہ سے ڈی دبلیو کے نامہ نگار غنی کاکڑ نے بتایا ہے کہ بدھ کو جمیعت سے وابستہ مظاہرین نے بلوچستان کو چمن بارڈر سے جوڑنے والی سڑک کو بند کردیا، جس سے پاک افغان تجارت رک گئی ہے۔
اسی طرح اطلاعات ہیں کہ بلوچستان سے سندھ کے علاقوں کندھ کوٹ اور جیکب آباد جانے والی سڑکیں بھی بند کی گئی ہیں، جبکہ جمیعت کے کارکنان کا کہنا ہے کہ جلد کراچی کوئٹہ روٹ بھی بند کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے ستائیس اکتوبر کو سندھ سے اپنے حکومت مخالف "آزادی مارچ" کا آغاز کیا اور پہلی نومبر سے اسلام آباد میں پشاور موڑ پر دھرنا شروع کیا۔
یہ دھرنا کوئی تیرہ دن چلا۔ جمعیت علمائے اسلام کے ہزاروں کارکن سردی اور بارش کے باوجود احتجاج میں شامل رہے۔ مظاہرین کی اکثریت خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں سے تھی۔ سندھ سے بھی جمعیت کے قافلے اسلام آباد میں خیمہ زن رہے۔ البتہ اس احتجاج میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے لوگوں کی شرکت کم رہی۔
اس دوران عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی کنٹینر پر پہنچ کر مولانا فضل الرحمان کے مطالبات کی حمایت کی۔ تاہم ماسوائے پختونخوا ملی عوامی پارٹی اپوزیشن کے ان جماعتوں کے کارکنان اس دھرنے میں نہ ہونے کے برابر تھے۔