مولانا وحیدالدین کی وفات، کیا ہم سب مذہبی ہیں؟
25 اپریل 2021ہو سکتا ہے یہ مضمون کچھ بوجھل ہو لیکن کوشش کیجیے کہ یہ چند پیراگراف جی کڑا کر پڑھ ہی لیں۔ آئیے کچھ دیر انسانی کھوپڑی کے اندر چہل قدمی کرنے کا شرف حاصل کریں۔
مشہور فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ وہ پہلا دماغ تھا، جس نے مائنڈ اور باڈی کے مابین تقسیم کا جامع نظریہ پیش کیا۔ جدید فلسفے و سائنس کے بانی نے سولہویں صدی میں تشکیک کا طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے جو نظام تخلیق کیا، وہ تقریبا انیسویں صدی کے اختتام تک تمام علوم کا مآخذ بنا رہا۔
تاہم بیسویں صدی کے آغاز پر دماغی صلاحیتوں اور شعوری و لاشعوری اعمال کو سمجھنے کے لیے نئی کوششیں شروع ہوئیں اور یوں نفسیات کا پہلا مدرسہ، دماغ کو اس کی ساخت کے حوالے سے جاننے والا مدرسہ کہلایا۔ اس مدرسے نے سمجھا کہ بات تو بہت آسان ہے کہ مختلف حصوں کو پڑھا اور پرکھا جائے اور جس حصے میں بھی کوئی مسئلہ ہو تو اس کو درست کر لیا جائے۔
ابھی یہ اپنی سمت کا تعین بھی نہ کر پائے تھے کہ کچھ ماہرین اٹھے اور انہوں کہا کہ یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہے تو یوں کرتے ہیں کہ دماغ کے حصوں کی حیاتیات پر دماغ کھپانے کے بجائے حصوں کو ان کے افعال سے پہچانتے ہیں اور انہی افعال کا مطالعہ کرتے ہوئے دماغ کی ساخت کی رہنمائی بھی ہو جائے گی اور علاج کے لیے طریقہ کار بھی وضع ہو جائے گا۔
ابھی یہ اپنے مدرسے کے خدوخال بھی وضع نہ کر پائے تھے کہ سگار ہونٹوں میں دابے ایک خوبرو شخص نمودار ہوتا ہے اور اپنے کچھ مشاہدات کے بیان سے متذکرہ بالا مدرسوں کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔سیگمنڈ فرائیڈ نامی اس ماہر نفسیات نے انسانی دماغ کو سمجھنے کی خاطر ایک نیا طریقہ اپنایا۔ اگرچہ اب ان کے نظریات سائنسی اعتبار سے اتنے معتبر نہیں رہے لیکن ان کا کیا ہوا کام، انسانی نفسیات کو سمجھنے میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوا۔
میری قوم کو ہنگامی بنیادوں پر دو ٹافیاں درکار ہیں!
سائنس کی سلطنت میں بات فرائیڈ سے پہلے شعور اور ادراک تک تھی۔ فرائیڈ نے مفروضوں کی بنیاد پر معاملہ تحت الشعور اور لاشعور تک پہنچا دیا۔ تحلیل نفسی نے کچھ مثبت نتائج یوں پے در پے دیے کہ سائنس کی سلطنت کے باسیوں کو چار و ناچار اس طرف توجہ کرنا پڑی۔
کیونکہ نظریے کی بنیادیں بہت حد تک مفروضوں پر مبنی تھیں تو کچھ لوگ اٹھے اور انہوں سے اس کو رویوں کی سائنس کہنا شروع کر دیا۔ رویہ کیونکہ ایک پیداوار ہے تو اس پیداوار اور اس کے ماخذ پر سائنسی تجربے آسانی سے ہو سکتے تھے۔ رویوں کو کیسے جانچنا ہے اور پھر رویوں میں کیسے تبدیلی لانا ہے یہ اس سائنس کی بنیاد تھی۔
جانوروں پر تجربات کی حد تک تو نتائج تقریبا سوفیصد تھے لیکن انسانوں کے ذہن کا معاملہ کچھ پیچیدہ تھا۔ ایسے میں کچھ سر پھرے چلا اٹھے اور انہوں نے 'انسان دوست نفسیات' یا ہیومنسٹ سائیکالوجی کی بنیاد رکھی اور اس مدرسے نے انسان کو فقط ایک چیز سمجھنے کے بجائے اس کو مرکزی مقام عطا کیا اور اس بات پر زور دیا کہ فقط چند رویوں کو نہیں بلکہ علاج کرتے وقت مکمل انسان کا مطالعہ کیا جائے۔ گیسٹالٹ نفسیات دانوں نے جب یہ کہا کہ کہ کل اپنے اجزا سے مجموعے سے زیادہ ہوتا ہے تو مکمل انسان والا معاملہ بھی ایک طرف ہو گیا۔
اس تمام سفر کے ساتھ ساتھ ایک اور میدان میں بھی حیرت انگیز پیش رفت ہوتی گئی۔ یہ میدان حیاتیات کا میدان تھا۔ نیورولوجی کی حیرت انگیز جستوں نے کئی نئے میدان کھول دیے۔ سائیکو فزکس اور بائیو سائیکالوجی جیسی فیلڈز نے ناظم کا سا کردار سنبھال لیا۔ مختلف سمتوں سے آنے والی دریافتوں سے نئے نئے نظریات جنم لینے لگے۔
دماغ کو سمجھنے کے لیے ایک سو پچاس سالہ سفر ایک حیرت انگیز سفر تھا۔ کیسے کیسے قد آور لوگ مسافر رہے۔انتہائی ذہین افراد کی زبردست تحقیق نے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم دماغ کی ستائش کر سکیں۔ یوں سمجھیے کہ دماغ اپنی ہی حیرت انگیز ساخت کی ستائش کر سکے اور دماغ اپنے آپ کو دیکھ کر یہ کہہ سکے کہ دماغ اس معلوم کائنات کا سب سے پیچیدہ نظام ہے۔
دماغ کی اس بات پر خود دماغ عش عش کر اٹھے لیکن عالی شان دماغوں کی دماغ سمجھنے کی اس کاوش کے بارے میں بڑی سہولت سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دماغ کو سمجھنے کے حوالے سے ہماری ابھی تک کی کامیابی یہ ہے کہ ہم دماغ کے دروازے پر کھڑے ہیں اور عمارت کے اندر پائی جانے والی اشیاء کے بارے کچھ جانکاری رکھتے ہیں۔ لیکن دماغ یا یوں کہیے کہ ذہن کے بارے میں مکمل جاننا ابھی بے حد مشکل نظر آ رہا ہے۔
نیوٹن سے ڈارون کا دور اس لحاظ سے کمال تھا کہ انسان اپنی تاریخ میں علم کے حوالے سے پہلی دفعہ اس قدر پر اعتماد نظر آیا۔ ایسے لگا جیسے گنجل کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ نیوٹن مادہ کے حوالے سے اور ڈارون فطرت کے حوالے سے ایسی اطلاعات دے رہے تھے، جن سے معلوم ہوتا تھا کہ تمام مسائل اپنی اصل میں طبعیات کے ہی مسائل ہیں۔ ایسے میں آئن سٹائن اور کوانٹم فزکس نے مادہ سے متعلق طبعیاتی تصورات کے پرخچے اڑا دیے۔
آئیے بات کو آگے بڑھانے سے پہلے اپنی حسیات کا ہی جائزہ لے لیں، جن کے استعمال سے ہم نظریات وضع کرتے ہیں۔ فلسفہ کے حوالے سے ایک مشہور زمانہ سوال ہے کہ اگر کسی جنگل میں درخت گرے اور کوئی کان اسے سننے والا موجود نہ ہو تو کیا پھر بھی درخت کے گرنے کی آواز آئے گی؟
آج سائنس کی مدد سے ہم جانتے ہیں کہ درخت گرنے کی کوئی آواز پیدا نہیں ہو گی بلکہ درخت گرنے سے میکانیاتی لہریں پیدا ہوں گی اور کیونکہ کان ان میکانیاتی لہروں کو میکانیاتی طریقہ کار سے دماغ تک پہنچاتا ہے جو ان لہروں کو آواز کی شکل میں ہمارے ذہن میں متشکل کرتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ کان کی ناموجودگی میں یہ کائنات اپنے اندر ایک پراسرار خاموشی رکھتی ہے۔
فنون لطیفہ سے روزمرہ کی بول چال تک آواز ہماری زندگیوں کا ناگزیر حصہ ہے اور یہ آواز ہمارے دماغ کی پیچیدہ تخلیق ہے۔ مزید یہ کہ ہماری بیشتر حسیات کرہ ارض کے ماحول کے مطابق ڈیزائنڈ ہیں۔ حسیات کی تحدیدات پر علامہ اقبال نے تجدید فکریات اسلام میں لکھا ہے کہ 'حواس کے معروض مثلا رنگ اور آواز وغیرہ ادراک کرنے والے ذہن کی اپنی حالتیں ہیں اور یوں وہ فطرت کی معروضیت سے خارج ہیں۔ اسی بنا پر وہ کسی بھی مفہوم میں مادی اشیاء کے خواص نہیں ہوتے۔ ذہنی حالتوں کے بطور یہ ارتسامات ہیں جو ہمارے اندر تاثرات پیدا کرتے ہیں۔ان تاثرات کی وجہ مادہ یا مادی اشیاء ہیں جو ہمارے اعضائے حس' اعصاب اور دماغ کے ذریعے ہمارے ذہن پر عمل کرتی ہیں۔ یہ مادی علت چونکہ تعلق یا تصادم کے ذریعے عمل پیرا ہوتی ہے لہذا یہ شکل' حجم ' ٹھوس پن اور مزاحمت کی صفات رکھتی ہے'
واہ واہ، علامہ صاحب کا یہ پیرا پڑھ کر راقم اس لیے عش عش کر اٹھا کہ علامہ صاحب کے ان لیکچرز کا زمانہ 1928 کا ہے اور نیورولوجی اور کوانٹم مکینکس ابھی اپنا سفر شروع کر رہی ہیں۔ کوانٹم مکینکس کا تجربہ ڈبل سلٹ کا زمانہ 1926 ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہےکہ علامہ اقبال عصری علوم کے جدید ترین نظریات سے مکمل آگاہ نظر آتے ہیں اور ان نظریات کی بنیاد پر جو بات کر رہے ہیں وہ آج بھی سچ ثابت ہو رہی ہے۔
نفسیات میں ابھی بھی ہمارا زور دماغ کے اس حصے پر ہے جس کو عقل یا فکر کا گھر کہتے ہیں۔ ہماری ساری توجہ اس لیے اس گھر کے حوالے سے تحقیق پر ہے کیونکہ سائنس کے دائرہ کار میں یہی آتا ہے۔ دوسری طرف مذہبی لوگ اور صوفیا زمانہ قدیم سے کچھ مشاہدات کا دعوی کرتے نظر آتے ہیں جن کا ابلاغ اس طور پر وہ ناممکن سمجھتے ہیں کہ انسانی فکر اس کا من و عن مشاہدہ کر سکے۔
ایک اور الجھاؤ یہ بھی ہے کہ ان دعوی کرنے والوں کی اکثریت کی بنیادی شناخت اچھے اور باکردار انسان ہونے کے حوالے سے ہے۔ علامہ اقبال شاید انہیں بنیادوں پر مذہبی تجربے کو رد کرنے کے مخالف نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "صوفیانہ مشاہدات کے ناقابل ابلاغ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر احساسات ہیں، جن میں عقلی استدلال کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ صوفیانہ مشاہدات میں بھی دیگر محسوسات کی طرح ادراکی عنصر موجود ہوتا ہے اور محسوسات میں اداراک کا یہ عنصر ان صوفیانہ مشاہدات کو تصورات علم میں متشکل کر سکتا ہے۔ درحقیقت احساس کی فطرت میں ہے کہ وہ فکر میں ڈھل جائے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ احساس اور فکر دونوں داخلی مشاہدے کی وحدت کے علی الترتیب غیر زمانی اور زمانی پہلو ہیں۔
علامہ صاحب احساس کے حوالے سے پروفیسر ہاکنگز کا حوالہ دیتے ہیں کہ ' احساس کے سوا وہ کیا ہے جہاں احساس ختم ہو سکتا ہے۔میرا جواب ہے ،کسی معروض کا شعور۔ احساس مکمل طور پر کسی باشعور ہستی کی بے قراریت ہے، جس کا قرار اس کی اپنی حدود میں نہیں بلکہ اس سے ماورا ہے۔ احساس کا دباؤ خارج کی طرف ہے جیسا کہ فکر باہر کی خبر دینے والا ہے۔ احساس اتنا اندھا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ہی معروض کے بارے میں فکر سے عاری ہو۔ احساس پیدا ہوتے ہی ذہن پر حاوی ہو جاتا ہے۔ احساس کے ایک اٹوٹ جزو کی حیثیت سے فکر وجہ تسکین بنتا ہے، احساس کا بے سمت ہونا اسی طرح ممکن ہے جیسے کسی عمل کا بے سمت ہونا۔ سمت کا مطلب ہے کوئی مقصود یا مطلوب۔ شعور کی کچھ ایسی مبہم حالتیں بھی ہیں جہاں ہمیں مکمل بے سمتی نظر آتی ہے مگر ایسے معاملات میں یہ بات غور طلب ہے کہ احساس بھی حالت التوا میں رہتا ہے‘
کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال مغربی فلسفے سے متاثر تھے، اسی لیے انہوں نے انسانی عقل و شعور کی سرگرمیوں کو سمجھنے کی خاطر مذہبی استعاروں کا استعمال کیا۔ پیچیدہ گھتیوں کو سلجھانے کی خاطر رینے ڈیکارٹ سمیت، فریڈرش ہیگل اور ایمانوئل کانٹ جیسے نامی گرامی فلسفہ دانوں نے مذہب کی حیثت سے یکسر انکار نہیں کیا تھا۔
آپ کو معلوم ہے کہ تمام مذاہب داخل کی جانب ارتکاز کرنے پر زور دیتے ہیں۔ قرآن میں بہت ساری آیات بظاہر فکر کی مدد سے خارج پر توجہ دینے پر اکساتی ہیں لیکن آخر پر وہ بھی فکر کے سارے تجربے کو سمیٹ کر داخل یا احساس کی جانب جانے کی تجویز دیتی ہیں۔ احساس کے حوالے سے تاریخ انسانی کے بہت بڑے تجربوں کے دعوؤں سے صریحا انکا بذات خود 'صحت مندانہ فکر' نہیں ہے۔
اگر اب تک اس مضمون کو آپ پڑھ رہے ہیں تو آپ ایک کمال ڈھیٹ انسان ہیں۔ چلیے اگر آپ اب تک میرے ساتھ ہیں تو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کچھ نتائج کی جانب چلتےہیں۔
اب تک تمام علوم سے ہم نے جتنا جانا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں یہ دشواری نہیں ہونا چاہیے کہ علم کا دائرہ بہت ہی محدود ہے اور اس دائرے میں رہتے ہوئے ہم اس احساس میں جکڑے رہتے ہیں کہ نامعلوم کی سرحدیں کہیں وسیع ہیں۔ یہ صورت عاجزی پیدا کرتی ہے۔
مضمون آگے پڑھنے سے پہلے یہ نوٹ کر لیں کہ احساس لفظ کو علامہ اقبال نے 'سبلیمینل مائنڈ' کے طور پر استعمال کیا ہے یا نفسیات کی مبہم اصطلاحوں میں تحت الشعور و لاشعور کہہ لیں جبکہ فکر کو انہوں نے شعور یا آگہی کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ ی
فکر اور احساس کو علامہ صاحب نے جن معنوں میں استعمال کیا ہے، انہی معنوں میں استعمال کرتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ تحدیدات کا دائرہ صرف حسیات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فکر [شعورو آگہی] بھی اسی قطار میں کھڑی نظر آتی ہے۔
احساس کی وسیع و عریض سلطنت کا شائبہ ہم سب کو ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کم کبھی زیادہ لیکن فکر کے پس منظر میں دراز قامت احساس کا شائبہ یا پرچھائیں کا ادراک رہتا ضرور ہے۔
کیا کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو احساس کے سرے سے ہی منکر ہوں؟
ہمارے ایک دوست ہیں خواجہ جنید یزدانی وہ کہتے ہیں کہ احساس کچھ اوزان رکھتا ہے اور اگر فکر کے اوزان اس سے ہم آہنگ ہوجائیں تو یہ حالت سکون اور زیادہ جان سکنے، زیادہ علم حاصل کر سکنے کی مخفی طاقت ہے۔ لیکن حسیات و فکر کی تحدیدات میں گھر کر خارج کو ایسا ردعمل دینا جو احساس کے اوزان سے مطابقت نہ رکھتا ہو 'گمراہی' ہے۔
کیا احساس سے منکر طبقہ روشن خیالوں کا طبقہ ہے؟
نہیں احساس سے منکر کوئی بھی ہو سکتا ہے بدقسمتی سے غالب کثرت مذہبی لوگوں کی نظر آتی ہے جن کو احمد جاوید صاحب کی حالیہ ایک وائرل ویڈیو کی زبان سے 'بدتمیز مذہبی' کہا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک بہت بڑی تعداد' روشن خیال یا لبرل بدتمیزوں' کی بھی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی فکر اور احساس میں اوزان کی ہم آہنگی نام کی کوئی چیز نہیں۔
میری نظر میں مولانا وحید الدین کی وفات پر افسوس کرنے والے تمام لوگ احساس کا ادراک رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تمام وزن حسیات و فکر کی تحدیدات کے پلڑے میں نہیں رکھتے، چاہے ان کی بنیادی شہرت مذہبی ہو یا روشن خیالی اور دوسرے لوگوں کے بارے میں تو اب آپ جانتے ہی ہیں چاہے ان کی شناخت لبرل ترقی پسند روشن خیالی کی ہو یا وہ اپنی پہچان کی مذہب سے وابستگی بتاتے ہوں یہ احساس کا احساس رکھتے ہیں۔
یوں میرے خیال میں اگر آپ معلوم کو نامعلوم کے دائرےکے اندر ایک نقطہ سمجھتے ہیں اور اگر آپ حسیات و فکر کی تحدیدات سے واقف ہیں اور آپ کو اپنے اندر احساس کی پرچھائیں کا شائبہ ہے تو آپ بھی ایک مذہبی شخص ہیں چاہے آپ کی کوئی مذہبی شناخت ہے یا آپ اپنے آپ کو مذہب مخالف ہی کیوں نہیں سمجھتے اور کسی مذہبی شخص کو مولانا وحید الدین کی وفات پر رونا دھونا زیب دیتا ہے۔