پڑھنے کی غرض سے بنگلہ دیش سے آسٹریلیا جانے والی ایک طالبہ کو اقدام قتل پر بیالس برس کی سزائے قید سنا دی گئی ہے۔ استغاثہ کے مطابق وہ اسلامک اسٹیٹ کے نام پر کسی کو ہلاک کرنے کی خاطر ہی آسٹریلیا پہنچی تھی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے آسٹریلوی استغاثہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ چھبیس سالہ مومنہ شوما نے آسٹریلیا پہنچنے کے آٹھ دن بعد ہی اپنے مالک مکان کو حملے کا نشانہ بنایا۔ اس نے کچن میں استعمال ہونے والی ایک عام چھری سے راجر سنگاراویلو کی گردن پر اس وقت وار کیا، جب وہ دوپہر کے وقت سو رہے تھے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق مومنہ نے اعتراف جرم کر لیا تھا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق شوما دراصل اسلامک اسٹیٹ کے نظریات سے متاثر ہو کر غیر مسلموں کو ہلاک کرنے کی قائل ہو چکی تھی۔
انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ماہر انسداد دہشت گردی و تنازعات آلتو رابے توبن کے مطابق کوئی شخص فوری طور پر انتہا پسندی کی طرف مائل نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مومنہ کے کیس میں یہ پرکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟ ان کے مطابق نظریات اپنی جگہ لیکن ساتھ ہی اقتصادی حالات، نفسیاتی مسائل اور رشتوں میں پیچیدگیاں بھی کسی کو اس طرح مکمل طور پر بدل کر رکھ سکتی ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ حملے کے وقت مومنہ شوما نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس کارروائی میں راجر صرف زخمی ہوئے اور علاج کے بعد وہ تندرست ہو گئے۔ وکٹوریہ ریاست کی سپریم کورٹ نے بدھ کے دن فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مومنہ شوما کو اکتیس سال اور چھ ماہ تک پیرول پر بھی رہا نہیں کیا جا سکتا۔
استغاثہ نے بتایا کہ ڈھاکا کی رہائشی شوما سن دو ہزار تیرہ میں انتہا پسندی کی طرف مائل ہوئی اور اس وقت اس کی عمر تئیس برس تھی۔ پہلے اس نے ترکی جانے کی کوشش کی تاکہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے زیر قبضہ شامی علاقوں تک پہنچ جائے تاہم وہ اس میں ناکام ہو گئیں۔ پھر انہیں آسٹریلیا میں پڑھنے کے لیے ایک اسکالر شپ مل گئی اور وہ یکم فروری سن دو ہزار اٹھارہ کو میلبورن پہنچ گئیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ شوما کو غیر ملکی اسٹوڈنٹس کے ایک پروگرام کے تحت ایک فیملی کے ساتھ ٹھہرایا گیا تھا۔ شوما نے تین فروری کو اندھیرے میں دیکھ سکنے والی عینک خریدی اور چھ فروری کو حملے کی ریہرسل کی، جس میں انہوں نے رات کے اندھیرے میں میٹرس پر چاقو سے وار کیے۔ اس وقت مالک مکان گھر پر موجود نہیں تھے۔ جب وہ گھر پہنچے تو انہوں نے نقصان دیکھتے ہوئے شوما کو گھر چھوڑنے کے لیے کہہ دیا۔
اس کے بعد انہیں راجر کے گھر منتقل کیا گیا اور شوما نے نو فروری کو راجر پر ہی حملہ کر دیا۔ شوما کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کی گئی۔ ان پر اقدام قتل کے الزامات ثابت ہو جانے پر عدالت نے بدھ پانچ جون کو بیالس برس کی سزائے قید سنا دی۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔