پیرس اولمپکس 2024ء کی افتتاحی تقریب میں 25 کروڑ آبادی کے ملک سے صرف 7 کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستانی دستے کو دیکھ کر قطعی تعجب نہ ہوا۔ حیرانی تو خیر اس پر بھی نہ ہوئی کہ قوم ان میں سے چند کھلاڑیوں کو جانتی بھی نہیں تھی۔
یہ سوال تو متواتر اٹھایا جا رہا ہے کہ جنرل سعید عارف حسن جو پچھلے بیس برسوں سے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر تھے، ان کا اس شعبے سے کیا لینا دینا تھا؟ اور اگر وہ واقعی اس ادارے کی صدارت کے اہل تھے تو ان دو دہائیوں میں ایک بھی تمغہ پاکستان کے حصے میں کیوں نہیں آیا؟ وہیں تنقید کرنے والے یہ بھی تعجب کرتے ہیں کہ اسپورٹس کی 34 فیڈریشن میں سے 15 اسپورٹس فیڈریشن کے سربراہان ریٹائرڈ فوجی کیوں ہیں؟ وہیں لوگ کھیل کے لیے % 0.3 مختص بجٹ پر بھی دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی اولمپکس میں پاکستانی دستے کی، جس میں ایک بیس سالہ لڑکی جہاں آرا نبی بھی شامل تھی، جنہوں نے تیراکی کے مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ حیرانی تو بہت ہوئی کہ ریاست نے ایسا خوش آئند قدم اٹھایا، لیکن خوش فہمی ذرا پرے رکھیں کیونکہ جہاں آرا نبی ریاستی سرپرستی کے برعکس اپنے بل بوتے پر اولمپکس تک پہنچیں تھیں۔ ان کے والد نے پندرہ سال کی عمر میں انہیں تیراکی کی تربیت کے لیے تھائی لینڈ بھیج دیا تھا۔ البتہ حیرانی تب ہرگز نہ ہوئی جب جہاں آرا نبی کی تیراکی کے لباس میں تصاویر اور ویڈیو دیکھ کر پاکستانی مجاہدوں نے اس کی ہمت اور تیراکی میں اس کی کارکردگی پر بات کرنے کے بجائے اسے جسم کی نمائش کہا اور فحاشی کے الزامات کی بھرمار کر دی۔ سوشل میڈیا پر ایسے لاکھوں تبصرے دیکھ کر قطعی تعجب نہ ہوا کیونکہ ہماری ریاست کا بھی تو ملک کی آدھی آبادی کے بارے میں یہی بیانیہ ہے۔
دوسری جانب پاکستانی عوام کی اکثریت کو غالباً دو ہفتے قبل تک یہ بھی علم نہ تھا کہ جیولین تھرو نامی کوئی کھیل بھی ہوتا ہے۔ دو ہزار بائیس تک یہ قوم ارشد ندیم کے نام تک سے بےخبر تھی اور بہت ہی کم لوگ واقف تھے کہ ارشد ندیم کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیت چکے ہیں۔ لیکن جب ارشد ندیم 6 اگست 2024ء کے پیرس اولمپکس میں جیولین تھرو کے فائنل کے لیے منتخب ہوئے تو پاکستانی عوام کے کان بھی کھڑے ہوئے اور دست بہ دعا بھی۔ فائنل میچ میں ارشد ندیم نے جیولین 97. 92 میٹر تک پھینک کر نہ صرف 32 سال بعد سونے کا تمغہ پاکستان کے نام کیا بلکہ اولمپکس میں جیولین تھرو کی سو سالہ تاریخ میں بھی ایک ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔
وہی ارشد ندیم جو 2016 سے اپنے زور بازو اور محنت کے بل پر جیولین تھرو کے کئی ملکی اور غیر ملکی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہیں تھے لیکن ریاستی اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے پر میاں چنوں کے ایک چھوٹے سے گھر میں اپنے خاندان سمیت سادہ سی زندگی بسر کر رہے تھے، ایک دم سے پوری قوم کے ہیرو بن گئے۔
پھر کیا عسکری تو کیا حکومتی تمام اداروں میں یہ ثابت کرنے کی دوڑ لگ گئی جیسے ارشد ندیم کو جیولین تھرو کی جانب راغب کرنے کا سہرا ان کے ہی سر ہے۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ریاستی اداروں کی جانب سے فوراً سے پیشتر دو کروڑ چند لاکھ کی ایک رسید میڈیا کو فراہم کی گئی جس میں ارشد ندیم کو پچھلے سات سال امداد مہیا کرنے کا پورا احوال موجود تھا۔ اندازہ لگائیں جس کھلاڑی نے سات آٹھ سال میں سینکڑوں قومی اور بین الاقوامی تمغے جیتے ہوں اس پر دو کروڑ خرچ کرنے پر ہماری حکومت نے فوراً احسان جتانا ضروری سمجھا۔
جس دن ارشد ندیم کی کامیابی پر شادیانے بجائے جارہے تھے وہیں مونال اور دیگر ریستوران کے ہزاروں ملازمین اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے کا پروانہ پکڑے آنسو بہا رہے تھے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سر تسلیم خم لیکن بولنے والوں کی زبان تو پکڑی نہیں جا سکتی کہ حسب روایت دفاعی مقاصد کے لیے ہری پور کے پرفضا مقام پر پینتالیس ہزار ایکڑ زمین ایک ریاستی ادارے کو بنا چوں چراں تھما دی جاتی ہے جبکہ عوام کے لیے ایسے گھٹن زدہ ماحول سے وقتی فرار کے رستے اور روزگار کے معمولی مواقع بھی بند کیے جارہے ہیں۔ سامنے ہی ٹیلی وژن اسکرین پر ارشد ندیم، جیولین، پیرس اولمپکس، گولڈ میڈل اور ورلڈ ریکارڈ کی گردان جاری تھی لیکن ملازمین کو اس وقت اپنی ہار کے سامنے کسی کی جیت کی خوشی نہ تھی۔
شاید کچھ ملازمین سوچ رہے ہوں گے کہ کاش ہم بھی جیولین تھرو جیسے کسی کھیل میں ہی قسمت آزمائی کر لیتے، تو کچھ خود کو کوس رہے ہوں گے کہ کاش فوج میں ہی بھرتی ہوجاتے تو ریستوران میں بیس برس کام کرنے کے عوض یہ بے روزگاری کے عفریت کو ہاتھ میں نہ پکڑے کھڑے ہوتے۔
لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چاہے بات اولمپکس اور کھیلوں میں پاکستان کے زوال کی ہو یا عسکری و سویلین کاروباری عناصر کی نیشنل پارک جیسے پرفضا مقامات پر تعمیرات کی ہو، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ سوال اٹھانے والے تو یہ بھی دُہائی دے رہے ہیں کہ احتساب تو ان کا ہونا چاہیے جنہوں نے دو دہائی قبل اس نیشنل پارک کی اراضی کو کمرشل بنیادوں پر استعمال کرنے کی اجازت دی تھی؟ اگر مونال کسی مقتدرہ ادارے کی ملکیت ہوتا تب بھی حاکم وقت کا فیصلہ یہی ہوتا؟ یا کھیلوں میں ہماری کارکردگی زوال پذیر کیوں ہوئی کہ حالیہ اولمپکس میں فقط سات کھلاڑی ہی پاکستان کو نصیب ہو سکے؟ یا ہمارے نوجوان اور نئے ٹیلنٹ کو بنیادی سہولتیں کیوں فراہم نہیں کی گئیں؟
مونال ریستوران کے بند ہونے سے لے کر اولمپکس میں ناقص کارکردگی پر سوالات تو بے تحاشا ہیں لیکن جواب طلب کرنے کی جسارت کرے گا کون؟ یہ سب سے اہم سوال ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔