سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق 11 ستمبر تک مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں واقع تمام ریسٹورنٹ اور تجارتی سر گرمیاں بند کر دی جائیں گی۔ لیکن کیا اس فیصلے سے وہاں وائلڈ لائف کو بچانے میں مدد ملے گی؟
اشتہار
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 11 جون 2024ء کو اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تمام تجارتی سرگرمیوں کو ختم کرنے اور وہاں واقع تین مشہور ریسٹورنٹ مونال، گلوریا جینز اور لا مونتانا کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں مونال کے مالکان کی درخواست پر انھیں تین ماہ کا ریلیف دیا گیا تھا جو 11 ستمبر کو ختم ہو رہا ہے۔
مونال اور لامونتانا ریسٹورنٹ کی بندش کے خلاف نظر ثانی کی ایک اپیل، یہ تحریر لکھتے وقت تک سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ اس وقت عوام خصوصاﹰ اسلام آباد کے رہائشی دو رائے میں بٹے نظر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ مونال سے جڑی یادوں کے باعث اس کی بندش پر غمگین ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس سے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں وائلڈ لائف اور ایکو سسٹم کی حفاظت میں مدد ملے گی۔
مونال کی تاریخ کیا ہے؟
مونال ریسٹورنٹ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں پیر سوہاوہ روڈ پر انتہائی پر کشش مقام پر واقع ہے۔ یہ اسلام آباد کا ایک اہم سیاحتی مر کز ہے۔ مونال انتظامیہ کے مطابق انھوں نے 2006ء میں تفریحی مقاصد کے لیے مختص یہ زمین سی ڈی اے سے باقاعدہ نیلامی پر حاصل کی تھی۔ 15 برس کی لیز کا یہ معاہدہ 2021ء میں ختم ہو چکا ہے۔ ابتدا میں اس کا ماہانہ کرایہ دو لاکھ سا ٹھ ہزار روپے تھا جو اب آٹھ لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔
تنازعات کا آغاز کیسے ہوا؟
سنہ 2015ء میں اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کے قیام کے بعد یہ بات سامنے آئی کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں جس جگہ مونال واقع ہے وہ وائلڈ لائف بورڈ اسلام آباد کی ملکیت ہے لہٰذا اس کا ماہانہ کرایہ بورڈ کو دیا جائے۔
اس سے اگلے برس پاکستانی فوج کے ری ماؤنٹ ویٹرنری اینڈ فارمز کور کے ڈائریکٹوریٹ نے وزارت دفاع سے رجوع کیا کہ مونال کی زمین پاک فوج کی ملکیت ہے لہذا کرایہ بھی اسے ادا کیا جانا چاہیے۔
سنہ 2022ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں قائم تجاوزات کے خلاف ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے سی ڈی اے کو مونال سیل کرنے اور نیوی گولف کورس اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے اس پر حکم امتناعی جاری کردیا تھا۔
یہ تمام معاملات سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مزید گمبھیر ہوتے چلے گئے جس کا اختتام جون 2024ء میں مونال کے ساتھ دو مزید ریسٹورنٹ اور مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ہر قسم کی تجارتی سرگرمیوں کی بندش پر ہوا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر کے قوانین ہیں جن کے مطابق دنیا بھر میں نیشنل پارکس میں فلورا (نباتات) اور فاؤنا (حیوانات ) کی حفاظت، حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
اسلام آباد نیچر کنزرویشن اینڈ وائلڈ لائف منیجمنٹ ایکٹ 2023
مارگلہ ہلز نیشنل پارکپاکستان کا تیسرا بڑا نیشنل پارک ہے جسے 1980ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ یہاں جنگلات اور جنگلی حیات کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔
اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کی چیئر پرسن رینا سعید خان کہتی ہیں کہ اگست 2023ء میں اسلام آباد نیچر کنزرویشن اینڈ وائلڈ لائف منیجمنٹ ایکٹ نافذ کرنے کا بنیادی مقصد مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں جنگلی حیات کا تحفظ ممکن بنانا اور وہاں بڑھتی ہوئی تجاوزات سے متعلق لیگل فریم ورک تیار کرنا تھا۔
رینا سعید خان کے مطابق اس ایکٹ سے قبل وائلڈ لائف بورڈ اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈینینس 1979ء کے ماتحت تھا جس میں بہت سی خامیاں تھیں، لیکن نئے ایکٹ کے نفاذ کے بعد بورڈ ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدامات میں آزاد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں وائلڈ لائف کو بچانے کے لیے وہاں وزیٹر انفارمیشن سنٹر اور چیک پوسٹیں قائم کرنے کے علاوہ مارگلہ کی مشہور ٹریلز پر روزانہ ایک مخصوص تعداد کو معمولی فیس کے ساتھ جانے کی اجازت جیسے اقدامات زیر ِغور ہیں۔
اشتہار
'نیچر کنزرویشن ہماری ترجیح ہی نہیں‘
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل انوائرمینٹل سائنسز کی طالبہ فریال حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر نیشنل پارک سے متعلق بین الاقوامی قوانین نظر انداز کر کے مارگلہ ہلز میں کمرشل سرگرمیوں کی اجازت دی گئی تھی تو وہاں 'ویسٹ منیجمنٹ‘ اور اطراف میں فلورا و فاؤنا کے تحفظ سے متعلق اقدامات بھی کیے جانا چاہیے تھے۔
نعیم احمد انوائرمینٹل ایکٹیوسٹ ہیں۔ انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مارگلہ ہلز میں واقع مونال اور دیگر ریسٹورنٹس میں کچرے اور گندے پانی کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں ہے، جس سے مارگلہ میں صاف پانی کے چشمے آلودہ ہو رہے ہیں اور اس کے علاوہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں جانے اور سیاحوں کے کچرا پھینکنے سے ٹریلز بھی آلودہ ہو رہے ہیں۔
نعیم احمد کے بقول صرف موجودہ سیزن میں مارگلہ ہلز میں آگ لگنے کے تقریباﹰ 21 واقعات ہوئے اور یہ کہ سی ڈی اے کے پاس اس آگ کو بجھانے کے لوازمات بھی نہیں ہیں اور این ڈ ی ایم اے سے مدد لی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ سی ڈی اے کے چیئر مین سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران تسلیم کر چکے ہیں کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر جنگلات میں آگ سی ڈی اے کے اپنے ملازمین لگاتے ہیں۔
نعیم احمد کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اگر پوری طرح عمل ہوا تو نا صرف مارگلہ ہلز نیشنل پارک بلکہ ملک بھر میں نیشنل پارکوں کی ابتر حالت کو بہتر بنانے اور معدوم ہوتی انواع کو بچانے میں مدد ملے گی۔
نعیم تجویز کرتے ہیں کہ ان ریسٹورنٹ کی عمارتوں کو گرانے کے بجائے ان میں وائلڈ لائف میوزیم یا نیچر کنزرویشن سے متعلق دفاتر بنا دیے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
اسلام آباد میں مارگلہ کی غاریں
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں قریب ڈھائی ہزار سال پرانی ایسی کئی غاریں ہیں، جنہیں اب کروڑوں روپے خرچ کر کے باقاعدہ طور پر بحال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شاہ اللہ دتہ غاریں
اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں شاہ اللہ دتہ نامی گاؤں میں یہ غاریں اللہ دتہ کی غاریں بھی کہلاتی ہیں، جو قریب دو ہزار چار سو سال پرانی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدیوں پہلے ان غاروں کا شاید کوئی اور نام تھا لیکن مغلیہ دور کے بعد اس جگہ کا نام ایک درویش شاہ اللہ دتہ سے موسوم ہو گیا تھا۔ شاہ اللہ دتہ مارگلہ کی پہاڑیوں واقع گاؤں ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں ہے، جس کے رہائشی بہت مہمان نواز ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پتھریلی مٹی کی پہاڑیاں
شاہ اللہ دتہ گاؤں میں یہ غاریں دور سے دیکھنے پر صاف نظر نہیں آتیں کیونکہ زیادہ تر پتھریلی مٹی والی پہاڑیوں میں بنی ان غاروں کو صدیوں پرانے بہت سے درختوں نے قدرتی طور پر اپنے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے سلسلے میں یہ غاریں خان پور کو جانے والی سڑک سے کچھ ہی دور واقع ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خستہ دہانے اور دیواریں
ان غاروں کے دہانوں اور ان کی بیرونی دیواروں کی حالت کافی خستہ ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہزاروں سال تک مختلف طرح کے شدید موسمی حالات نے ان پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان غاروں کو قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تاریخی باقیات کو محفوظ کرنے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دعوت اور پراسراریت
یہ غاریں دور سے دیکھنے والوں کو قریب آنے کی دعوت دیتی محسوس ہوتی ہیں اور قریب جائیں تو دیکھنے والوں پر تاریخ کی پراسراریت غالب آ جاتی ہے۔ سن اٹھارہ سو پچاس سے یہ غاریں ایک خاندان کے زیر انتظام ہیں۔ ان غاروں کی دیکھ بھال اس خاندان کے موجودہ سربراہ محمد اسماعیل کرتے ہیں، جو یہ کام اپنی نوجوانی کے سالوں سے کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سیاحوں کے لیے پرکشش
ان قدیم غاروں کو دیکھنے کے لیے چھٹیوں کے دوران بڑی تعداد میں مقامی سیاح قریب سات سو سال پرانے گاؤں شاہ اللہ دتہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان سیاحوں کے لیے محمد اسماعیل نے وہاں ایک چھوٹا سا چائے خانہ بھی کھول رکھا ہے۔ ان غاروں کو دیکھنے کے لیے آنے والے غیر ملکی مہمانوں میں اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی ہوتی ہے، جس کی وجہ کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک قدیم بدھ اسٹوپا کی باقیات بھی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمی کم کرنے کی کوشش
اس تصویر میں غاروں کے منتظم محمد اسماعیل ایک گرم دن کی سہ پہر پانی چھڑک کر زمین ٹھنڈی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قریب ہی ایک غار کے دہانے پر ایک رنگدار چادر بچھی ہے، جہاں یا تو محمد اسماعیل خود آرام کر لیتے ہیں یا وہاں آنے والے مہمان کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت ان غاروں کو محفوظ کرتے ہوئے انہیں بحال کیا جائے گا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کے بارے میں پرامید
محمد اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ماضی میں بھی ان غاروں کی بحالی کے منصوبے بنائے تھے لیکن عملی نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اس مرتبہ لیکن وہ پرامید ہیں کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں ان تاریخی غاروں کو بحال کرتے ہوئے انہیں سیاحوں کے لیے پرکشش بنا جائے گا، جس سے مقامی سطح پر ترقی میں بھی مدد ملے گی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
غار کا اندرونی منظر
اس تصویر میں شاہ اللہ دتہ کی غاروں میں سے ایک کا اندرونی منظر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ دو ہزار سال سے زائد کے عرصے میں یہ جگہ شکست و ریخت کے کس عمل سے گزری ہے۔ کئی جگہوں پر بوسیدہ اور غیر محفوظ قدرتی ڈھانچوں کی وجہ سے ان غاروں میں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بحالی اور صفائی کی ضرورت
ان غاروں میں سے چند ایک کی بیرونی دیواروں میں سوراخ بھی ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ان غاروں کو ممکنہ انہدام سے بچانا اور وہاں صفائی اور دیکھ بھال کے معیاری انتظامات بھی لازمی ہوں گے۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ان غاروں کی بحالی کے لیے چار کروڑ روپے مالیت کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے، جس پر اسی مالی سال کے دوران عمل شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
چشمے پر تالاب
محمد اسماعیل کے مطابق ماضی میں اس علاقے کا ایک نام گڑیالہ بھی تھا، جہاں کبھی تیرہ کنال پر پھیلا ہوا پھل دار درختوں والا ایک باغ تھا، جو ’بدھو کا باغ‘ کہلاتا تھا۔ یہ باغ سی ڈی اے نے 1983 میں اپنی ملکیت میں لیا، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ تصویر میں نظر آنے والا تالاب غاروں کے قریب سے گزرنے والے ایک قدیم چشمے کی گزرگاہ پر بنایا گیا ہے۔ یہی چشمہ اور تالاب پورے گاؤں کو سیراب کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
منہ چڑاتا ہوا سنگ بنیاد
پوٹھوہار کے علاقے میں شاہ اللہ دتہ گاؤں ایک ایسے راستے پر واقع ہے، جسے صدیوں تک شاہی قافلے اور فوجی لشکر ہندوستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ دو ہزار گیارہ میں سی ڈی اے نے ’سادھو باغ‘ کی بحالی کا ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کا سنگ بنیاد اس ادارے کے ایک چیئرمین نے رکھا تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
جون کے مہینے میں کام کا آغاز
ان غاروں کی بحالی کے منصوبے کے منتظم عامر علی احمد کےبقول اس پراجیکٹ پر کام موجودہ مالی سال ختم ہونے سے قبل شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ غاریں ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ انہیں بہت پہلے محفوظ کیا جانا چاہیے تھا۔ ماضی میں کئی منصوبے بنے لیکن ان پر عمل نہ ہو سکا۔ اب ہم نے بڑی منظم منصوبہ بندی کی ہے۔ ہم ان غاروں کی بحالی کے ذریعے سیاحت کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں۔‘‘