مونگ پھلی کی الرجی کے علاج کا کامیاب تجربہ
30 جنوری 2014طبی محققین کا کہنا ہے کہ بچوں میں مونگ پھلی کی الرجی کا علاج انہیں اسی چیز کو کھلا کر کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹروں نے کئی مہینوں تک مونگ پھلی کے سفوف کو بچوں کی غذا میں شامل کر کے ان کے جسم میں مونگ پھلی کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
طبی محققین کے مطابق دنیا بھر میں مونگ پھلی کے خلاف الرجی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور سے زیادہ آمدنی والے ممالک میں ہر 50 میں سے کم از کم ایک بچے کو مونگ پھلی سے الرجی ہے۔ یہ الرجی بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی کی الرجی خوراک کے سبب پیدا ہونے والی سب سے عام مہلک الرجی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس الرجی کے رد عمل سے بچنے کا کوئی اور راستہ نہیں سوائے اس کے کہ مونگ پھلی کھانے سے پرہیز کیا جائے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ الرجی پیدا کرنے والے ماحولیاتی محرکات، مثال کے طور پر پولن الرجی وغیرہ کے خلاف ٹیکے بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
برطانیہ میں کیمبرج کے ایڈنبروک ہسپتال نے بچوں میں پائی جانے والی مونگ پھلی کی الرجی کے علاج کا ایک کامیاب تجربہ کیا۔ ڈاکٹروں نے سات سے لے کر 16 سال تک کی عمر کے 99 ایسے بچوں کے کھانوں میں، جن میں مونگ پھلی کی شدید الرجی پائی جاتی تھی، دو ملی گرام مقدار میں موم پھلی کا پاؤڈر یا سفوف شامل کیا اور اس مقدار کو آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے 800 ملی گرام تک کر دیا۔ چھ ماہ تک اس عمل کو جاری رکھنے کےبعد محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان بچوں میں مونگ پھلی کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوگئی اور یہ بچے بغیر کسی ضمنی اثرات یا رد عمل کے مونگ پھلی کے پانچ دانے ایک وقت میں کھا سکتے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر اینڈریو کلارک جو اس تجربے کی سربراہی بھی کر رہے ہیں، کے بقول، ’’اس سے ان بچوں کی زندگیوں میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے‘‘۔ ڈاکٹر کلارک نے بتایا کہ اس تجربے سے قبل یہ بچے مونگ پھلی کا ایک چھوٹا سا ذرا بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو مونگ پھلی کی الرجی سے ممکنہ حد تک بچانے کے لیے والدین کو بہت محتاط رہنا پڑتا تھا اور اُنہیں بچوں کی غذا کے لیبل کو بہت غور سے اور مسلسل پڑھنا پڑتا تھا۔
ماہرین کی طرف سے بچوں پر یہ تجربہ انتہائی طبی نگرانی میں کیا گیا کہ کہیں ان پر خطرناک ضمنی اثرات تو مرتب نہیں ہو رہے۔ مونگ پھلی کی الرجی کی عام ترین علامات مُنہ میں خارش، معدے کا درد اور متلی ہوتی ہے۔
محققین کی طرف سے اس تجربے کا مقصد یہ نہیں کہ بچوں کو بہت زیادہ مقدار میں مونگ پھلی کھانے کا حامل بنایا جائے بلکہ ریسرچرز کے مطابق اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ اگر مونگ پھلی کی الرجی کے شکار بچے غلطی سے مونگ پھلی کھا لیں تو اس کے مہلک رد عمل یا جان کو لاحق خطرات سے انہیں بچایا جا سکے ۔
ڈاکٹر کلارک کا کہنا ہے کہ مریضوں کے امیون سسٹم یا قوت مدافعت کو مضبوط بناتے ہوئے رفتہ رفتہ ان میں مونگ پھلی کے خلاف قوت مدافعت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس تجربے پر آنے والے اخراجات برطانیہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل اور نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ نے ادا کیے ہیں۔ اس کے نتائج طبی جریدے لینسیٹ کے آن لائن ایڈیشن میں آج، جمعرات 30 جنوری کو شائع ہوئے ہیں۔
اُدھر امریکا کی مشیگن یونیورسٹی سے منسلک ایک ماہر ماتھیو گرینہاؤٹ نے اس تجربے کی رپورٹ کو غیر معمولی اور امید افزا قرار دیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ اس طریقہ علاج کو روٹین کے کلینیکل استعمال میں لانے میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔