موٹر وے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کی گرفتاری پر پنجاب حکومت کا ’فتح کا جشن‘ جاری ہے لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ پاکستان میں ایسے جرائم کی مستقل روک تھام کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟
اشتہار
تینتیس روز گزرنے کے بعد سانحہ موٹر وے کے مرکزی ملزم کی گرفتاری پر پنجاب کے وزیر اطلاعات نے قوم کو مبارکباد دی اور کہا کہ پولیس نے اس واقعے کے بہتر گھنٹوں کے دوران ہی پتا چلا لیا تھا کہ ملزمان کون ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے تو پولیس ٹیم کے لیے پچاس لاکھ روپے کے انعام کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ لیکن شاندار کامیابیوں کے دعوے دار حکومتی ارکان نے اس بات پر چپ سادھ رکھی ہے کہ سانحہ موٹر وے کے بعد بھی اس سے ملتے جلتے جرائم کیوں رونما ہو رہے ہیں؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کی وکیل ربیعہ باجوہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ ملزم عابد ملہی کو کب اور کتنی سزا مل سکے گی۔ ان کے بقول پاکستان کے عوام کو حقیقی اطمینان اسی وقت نصیب ہو سکے گا، جب موٹر وے زیادتی کیس جیسے جرائم کو مستقل طور پر روک دیا جائے گا۔
ربیعہ باجوہ نے کہا، ''پاکستان میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون تو موجود ہیں، لیکن علم درآمد کی صورت حال بہت خراب ہے۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں ایسے مقدمات میں ملزموں کو سزا ملنے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے تفتیشی نظام بہت ہی ناقص ہے جبکہ دوسری طرف ملک میں نظام انصاف بھی برباد ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘
معاشرتی گھٹن اور بے چینی
ربیعہ باجوہ کہتی ہیں کہ سانحہ موٹر وے کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی پھرتیوں کی اصل وجہ میڈیا میں اٹھنے والا شور تھا۔ آئے روز ہونے والے زیادتی کے ایسے تمام جرائم جن کو میڈیا میں جگہ نہیں ملتی، ان تمام واقعات میں غریب عوام کا کوئی پرسان حال ہے ہی نہیں۔
''ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کے ادارے، سول سوسائٹی کے بعض حصے اور میڈیا سب کمرشل سے ہو گئے ہیں۔ وہ واقعات کو اپنے مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اب عابد گرفتار ہو گیا ہے۔ چند دن بعد اکثر لوگ یہ واقعہ بھول جائیں گے اور یوں حکومتی اداروں پر دباؤ باقی نہیں رہے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی گھٹن اور بے چینی بھی ایسے جرائم کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہیں، ''ایسا پاکستانی معاشرہ جو پابندیوں میں جکڑا ہوا ہو، جہاں انسانی حقوق کی پاسداری حکومتوں کی اہم ترجیح نہ ہو، جہاں جبر کے ماحول میں انسانی حقوق کی پاسداری مشکل ہو، جہاں نہ تفریح کے مواقع ہوں اور نہ ہی آرٹس اور کلچر کو سرپرستی مل رہی ہو، جس معاشرے میں مقامی حکومتوں کا نظام اہل اقتدار کو خوش دلی سے قبول نہ ہو، وہاں ایسے جرائم پر ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
پاکستان کے بارے ميں دس منفرد حقائق
دنيا کے ہر ملک و قوم کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی ميدان ميں شہرت کے افق تک پہنچا جائے۔ پاکستان بھی چند منفرد اور دلچسپ اعزازات کا حامل ملک ہے۔ مزید تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
بلند ترین مقام پر اے ٹی ايم
دنيا بھر ميں سب سے زيادہ اونچائی پر اے ٹی ايم مشين پاکستان ميں ہے۔ گلگت بلتستان ميں خنجراب پاس پر سطح سمندر سے 15,300 فٹ يا 4,693 ميٹر کی بلندی پر واقع نيشنل بينک آف پاکستان کے اے ٹی ايم کو دنيا کا اونچا اے ٹی ايم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
سب سے کم عمر ميں نوبل انعام
سب سے کم عمر ميں نوبل امن انعام ملنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کو حاصل ہوا۔ ملالہ يوسف زئی کو جب نوبل انعام سے نوازا گيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ ملالہ سے پہلے ڈاکٹر عبداسلام کو سن 1979 ميں نوبل انعام کا حقدار قرار ديا گيا تھا۔
تصویر: Reuters/NTB Scanpix/C. Poppe
سب سے بلند شاہراہ
شاہراہ قراقرم دنيا کی بلند ترين شاہراہ ہے۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔
تصویر: imago
فٹ بالوں کا گڑھ - سیالکوٹ
سيالکوٹ اور اس کے گرد و نواح ميں سالانہ بنيادوں پر چاليس سے ساٹھ ملين فٹ باليں تيار کی جاتی ہيں۔ يہ فٹ بالوں کی عالمی پيداوار کا ساٹھ سے ستر فيصد ہے۔ خطے ميں تقريباً دو سو فيکٹرياں فٹ باليں تيار کرتی ہيں اور يہ دنيا بھر ميں سب سے زيادہ فٹ بال تيار کرنے والا شہر ہے۔
تصویر: Reuters
آب پاشی کا طويل ترين نظام
کنال سسٹم پر مبنی دنيا کا طويل ترين آب پاشی کا نظام پاکستان ميں ہے۔ يہ نظام مجموعی طور پر چودہ اعشاريہ چار ملين ہيکڑ زمين پر پھيلا ہوا ہے۔
تصویر: Imago/Zuma/PPI
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک پاکستان ميں ہے۔ يہ اعزاز غير سرکاری تنظيم ايدھی فاؤنڈيشن کو حاصل ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Hassan
سب سے کم عمر کرکٹر
سب سے کم عمر ميں انٹرنيشنل کرکٹ کھيلنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کرکٹر کو حاصل ہے۔ حسن رضا کی عمر صرف چودہ برس اور 227 دن تھی جب انہوں سن 1996 ميں فيصل آباد ميں زمبابوے کے خلاف پہلا بين الاقوامی ميچ کھيلا۔
تصویر: Getty Images
کرکٹ ميں سب سے تيز رفتار گيند
کرکٹ کی تاريخ ميں سب سے تيز رفتار گيند کرانے کا اعزاز شعيب اختر کو حاصل ہے۔ اختر نے سن 2003 ميں انگلينڈ کے خلاف ايک ميچ کے دوران 161.3 کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ايک گيند کرائی۔
تصویر: AP
سب سے کم عمر سول جج
محمد الياس نے سن 1952 ميں جب سول جج بننے کے ليے امتحان پاس کيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف بيس برس تھی۔ انہيں اس شرط پر امتحان دينے کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ امتحان پاس کرنے کی صورت ميں بھی 23 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ملازمت نہيں کريں گے۔ تاہم بعد ميں نرمی کر کے انہيں آٹھ ماہ بعد بطور سول جج کام کی اجازت دے دی گئی۔ محمد الياس سب سے کم عمر سول جج تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
9 تصاویر1 | 9
ربیعہ باجوہ کے مطابق پاکستان میں عورت پہلے ہی صنفی تفاوت اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ایسے میں ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز جب تک اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر نہیں بیٹھیں گے، تب تک یہ مئسلہ حل نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا، ''ایک ملزم کی گرفتاری سے نظام نہیں بدلے گا۔ بلکہ قلیل المدتی اور طویل المدتی اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
اشتہار
ہر ملزم کو سزا ملنا لازمی کیوں؟
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف اپلائیڈ سائیکالوجی کی سربراہ ڈاکٹر رافعہ رفیق کا کہنا تھا کہ سانحہ موٹر وے کے ملزم کو سزا ملنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس میں کوتاہی ہوئی تو اس سے مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کو شہ ملے گی اور معاشرے میں اس تاثر سے بے چینی پھیلے گی کہ یہاں مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر رافعہ رفیق کے بقول معاشرے کو ایسے جرائم سے پاک کرنے کے لیے صرف حکومتی کوششیں ہی کافی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ میڈیا کو اس مقدمے میں پیش رفت کے حوالے سے مثبت خبروں کو سامنے لانا چاہیے تاکہ عوام کا نظام عدل پر اعتماد بحال ہو اور انہیں اطمینان مل سکے۔
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
تصویر: DW/H. U. R. Swapan
14 تصاویر1 | 14
چنیوٹ میں ایک زمیندار کے ڈیرے پر روپوشی
موٹر وے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم کو پیر اور منگل کی درمیانی رات گرفتار کر کے لاہور لایا گیا تھا، جہاں منگل تیرہ اکتوبر کی صبح اسے سخت حفاظتی انتظامات میں کالے کپڑے سے ڈھانپے گئے چہرے کے ساتھ لاہور میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے ملزم عابد ملہی کو چودہ روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
پنجاب پولیس کے سربراہ انعام غنی نے لاہور میں میڈیا کو بتایا کہ عابد ملہی کی گرفتاری کے لیے نو ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔ ان کے مطابق ملزم عابد ملہی گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے قیام کی جگہیں بدلتا رہا تھا۔ وہ فورٹ عباس، چنیوٹ، مانگا منڈی سمیت مختلف اضلاع میں گیا۔
’’ملزم عابد کئی روز تک چنیوٹ میں ایک زمیندار کے ڈیرے پر بھی روپوش رہا، ملزم کو اس کے سالے کے موبائل نمبر کی مدد سے ٹریس کیا گیا۔ اسے اس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ مانگا منڈی کے علاقے میں اپنے والدین سے ملنے کے لیے دیوار پھلانگ کر اپنے گھر پہنچا تھا۔‘‘