موٹر گاڑیوں کی صنعت ، بحران کا شکار
13 جنوری 2009سپین میں دسمبر کے مہینے میں نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن میں 50 فیصد تک کمی رہی۔ جرمنی کی آٹو موبائیل صنعت بھی بحران کی لپیٹ میں ہے چنانچہ یہ بات حیران کن نہیں کہ دنیا بھر میں آٹوانڈسٹری کے ٹاپ مینیجر مایوس کن مستقبل کی خبر دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ صنعتی شعبہ 2013 تک بھی شاید ہی سنبھل سکے گا۔ ایک حالیہ سروے کے دوران موٹر ساز صنعتوں اور ان سے وابستہ دیگر فرموں کے کرتا دھرتا افراد کی 77 فیصد تعداد نے تشویش ظاہر کی کہ دیوالیے کا شکار ہونے والی فرموں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا جبکہ 72 فی صد کا خیال ہے کہ متعدد فرمیں ایک دوسرے میں ضم ہونے پر مجبور ہو جائیں گیں۔
جرمنی میں اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینے والی تنظیم KPMG کے سربراہ Uwe Achterholt نے بتایا:’’ہم نے سال ہا سال سے پرزے سپلائی کرنے والی فرموں پر دباؤ ڈال رکھا ہے کہ وہ ہمیں سستے داموں سامان سپلائی کریں۔ ان میں مزید سکت نہیں کہ وہ اور قیمتیں کم کریں۔ انہیں اب یا تو دیوالیہ ہونا پڑے گا اور یا پھر مارکیٹ میں موجود طاقتور فرمیں انہیں ہڑپ کر جائیں گئیں۔‘‘
آٹو انڈسٹری کے مینیجر حضرات کو توقع ہے کہ آئندہ بھی یہ بات اہم کردار ادا کرے گی کہ گاڑی کس موٹر ساز فرم کی تیار کردہ ہے۔
لیکن گاہک اب گاڑی خریدتے وقت سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی قیمت کیا ہے۔
اس کی واضع مثال فرانسیسی گاڑی Renault کا چھوٹا ماڈل ہے۔ یہ گاڑی گذشتہ برس جرمنی میں فروخت ہونے والی غیر ملکی گاڑیوں میں سب سے آگے رہی جس کی وجہ اس کی انتہائی کم قیمت تھی۔ اس نئی گاڑی کی قیمت تقریباً 7300 یورو ہے۔
موٹرگاڑیوں کے پرزے تیار کرنے والی سب سے بڑی جرمن فرم Bosch ، کاروباری آرڈر میں کمی کی وجہ سے اپنے 9000 کارکنوں کو Short time کام دینے پر مجبور ہو گئی ہے۔