1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موٹیویشنل اسپیکرز اور سلیمانی ٹوپیاں

13 دسمبر 2020

آج کل کیمبرج اسکولز میں بائیفرکیشن امتحانات کا موسم چل رہا ہے۔ دسمبر میں ان امتحانات کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبہ یہ فیصلہ کر سکیں، انہیں آگے میٹرک کرنا ہے یا پھر اولیولز کی طرف جانا ہے۔

DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ فیصلہ طلبہ کی کسی مضمون میں قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے والدین کی معاشی حالت یا سماجی دباؤ کے تحت ہوتا ہے کہ بچے کو زندگی کے کس شعبے یا کن مضامین کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک استاد اور امتحانات میں بطور ممتحن میرا فرض یہ بھی ہے کہ گفت و شنید کے پرچے میں ان سے یہ ضرور پوچھوں کہ وہ آگے کون سے مضامین یا زندگی میں کس شعبے کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں؟

لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اکثر طلبہ یا تو آگاہ ہی نہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ لینا ہے یا پھر جواب ایسے آتے ہیں، ''جو پاپا کہیں گے وہی بنوں گا، مجھے کرکٹر بننا ہے لیکن والدین چاہتے ہیں کہ میں بزنس  اسٹڈیز کروں، میں فیشن ڈیزائننگ پڑھنا چاہتی ہوں لیکن کیونکہ میری کزن ڈاکٹر بن رہی ہے تو مجھے بھی میڈیکل میں داخلہ لینا پڑے گا، مجھے فائن آرٹس پڑھنی ہے لیکن کیونکہ آج کل سی اے کی بہت ڈیماند ہے تو مجھے اسی کا انتخاب کرنا پڑے گا۔‘‘  دس میں سے نو طلبہ اسی ذہنی کشمکش میں ہیں کہ وہ کیا بنیں یا نہ بنیں؟

اب چند لمحے نکال کر یہ ضرور سوچیں کہ وہ ملک، جس کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو اور وہ اپنی جدوجہد کے لیے کسی واضح منزل کا تعین ہی نہیں کر پاتی۔ اس طرح کتنا ہنر، قابلیت اور ذہانت ہماری مجموعی کوتاہی کی وجہ  ضائع ہو رہے ہیں اور ہم اس پر کچھ سوچتے بھی نہیں۔کوریا، چین اور جاپان جیسے ممالک کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہاں کے نوجوان اور خواتین معاشی پہیے کو چلانے میں برابر مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

جب ایسی ذہنی الجھنوں کی شکار کھیپ عملی میدان میں تھپیڑے کھا کر تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے  تو کہیں سے آواز آتی ہے کہ تم کر سکتے ہو کیونکہ میں بھی جب ناکام تھا تو میں نے ہمت کی اور کامیاب ہو گیا۔ یہ آواز اکثر موٹیویشنل اسپیکرزکی ہوتی ہے یا وقتی دلاسے، تسلی کو کوئی ایسی ہی کتاب ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے،جس میں ماضی کی بارہا دہرائی گئی مثالوں سے جوش و جنون تو بھر دیا جاتا ہے پر نشان راہ نہیں بتایا جاتا۔

 حالات وہی ہوتے ہیں کہ حالت جنگ میں میزائل تو داغ دیا جائے پر ٹارگٹ کا کچھ پتہ نہ ہو۔ ایسی کتابوں، لیکچرز یا سیمینارز سے نوجوانوں کی ذہن سازی  یا کسی نئی مہارت میں کوئی مدد نہیں ہوتی، بس چند لمحوں کے لیے نوجوان وہ ہوائی قلعے ضرور تعمیر کر لیتے ہیں، جن میں انسان زندگی نہیں گزار سکتا۔

یہ بھی پڑھیے:پاکستانی ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ ناخواندگی

یقین مانیں کہ اگر آپ کسی موٹیویشنل اسپیکر کی تقریر سن لیں تو چند لمحوں کو تو آپ بھی کسی پہاڑ سے چھلانگ مارنے کو تیار ہو جائیں گے، یہ سمجھ کر کہ آپ کو طاقت پرواز مل چکی ہےکیونکہ ان کی لفاظی میں وہ تاثیر ہوتی ہے کہ اگلا سمجھتا ہے کہ مجھے وہ طلسمی سلیمانی ٹوپی مل چکی ہے جس سے میں پوری دنیا کو ایک کامیاب اور فاتح دکھائی دوں گا۔

 ایک موٹیویشنل اسپیکر کی کامیابی کی داستان صرف اس کے گرد گھومتی ہے، اس کے زندگی کے حالات، تجربات آپ سے کتنے بھی مختلف ہوں، وہ اسی بات پر بضد دکھائی دیتے ہیں کہ اسی فارمولے پر عمل کرو، جس کی وجہ سے  میں کامیاب ہوں ۔ ان تقاریر کا خلاصہ غیر حقیقی، دیرینہ خوابوں پر مبنی ہوتا ہے، جن کے مستند ہونے کا کوئی ریکارڈ عموما موجود ہی نہیں ہوتا۔

 اس قسم کے سیشنز سے صرف موٹیویشنل اسپیکرز خود ہی کروڑ پتی بنتے ہیں، دوسروں کا کوئی خاص معاشی فائدہ نہیں ہوتا۔ کئی مشہور ادارے طلبہ میں پڑھائی کی لگن پیدا کرنے کے لیے ایسے سیشنز منعقد کرواتے ہیں، جس کا اثر وقتی ہوتا ہے  کیونکہ انگریزی کی اصطلاح ایکسپوزیشن (وعظ/درس) کی صورت میں بولنے والا صرف اپنے تجربات کی روشنی میں بات کرتا ہے ، جبکہ طلبہ کے لیے کیرئیر کاؤنسلنگ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہےکیونکہ یہ گائیڈڈ ڈسکوری یا رہنمائی اور دریافت کے اصولوں پر چلتی ہیں ۔

جہاں موٹیویشنل اسپیکرز کی ساری باتیں صرف میں اور اپنی ذات کے گرد گھومتی ہیں، وہیں کیرئیر کاؤنسلنگ میں ساری توجہ اس نوجوان کی قابلیتوں کا تجزیہ  کرنے میں مرکوز کر دی جاتی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک میں یہ حالات دیکھ کر کافی یاسیت اور مایوسی کا شکار تھی کہ جس طرح ہمارے دور میں ہمیں  تعلیم کے سلسلے میں کوئی مناسب رہنمائی نہیں ملی تو ویسے ہی شاید اگلی نسلیں بھی حالات کے دھارے پر ہی اپنے مستقبل کی بنیاد ڈالیں گی۔ کیونکہ خود ایک ماں بھی ہوں اور ٹیچر بھی ہوں تو اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ہر بچہ الگ شخصیت اور قابلیتوں کا مالک ہوتا ہے اور ہم صرف اپنی انا کی تسکین یا سماجی دباؤ کی وجہ سے ان پر اپنی مرضی نہیں مسلط کر سکتے۔

میری یہ اذیت ایک دوست ڈاکٹر سے تعارف کے بعد ختم ہوئی۔ وہ گزشتہ ایک دھائی سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ تعلیمی دور کے ان مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے ایک ایسے ٹیسٹ کا آغاز کیا، جس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا جدید تکنیکی مہارتوں کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ سے کچھ آن لائن ٹیسٹ لیے جاتے ہیں، جس کے بعد ان کو ایک جامع رپورٹ مرتب کر کے دی جاتی ہے، جس میں طلبہ کی شخصیت کے غالب پہلوؤں کی روشنی میں چھ ایسے مضامین کی رزلٹ رپورٹ بنا کر دی جاتی ہے، جو  طالب علم کو متعلقہ شعبے  میں پڑھنے اور آگے بڑھنے میں مدد کر سکتی ہے۔

 پاکستان میں کئی دیگر افراد بھی ایسا کام کر رہے ہوں گے، جن سے اس حوالے سے مدد لی جا سکتی ہے۔  جب کسی انسان پر کوئی چیز جبرا مسلط کر دی جائے تو وہ ویسے ہی زندگی کی دوڑ میں اس بوجھ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

اس طرح کی کیریئر کاؤنسلنگ میں نئے طلبہ اپنے سینئرز سے مل کر ان کے تجربات سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور اسی سے متعلق ماہرین کی رہنمائی میسر آ سکتی ہے۔ جس شعبے میں آپ کو جانا ہے، اسی سے متعلق  مہارتوں کے لیے ورکشاپس اور کچھ صورتوں میں انٹرن شپس بھی کروائی جاتی ہیں، ان سے فائدہ حاصل کیجیے۔ طلبہ کو ٹارگٹ اور گائیڈ لائن دونوں میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام میں طلبہ اور نوجوانوں کی ذہن سازی کے لیے یہ ایک عام مشق ہے۔ ہم پاکستان کے مادی وسائل کے ضائع ہونے پر تو بہت کڑھتے ہیں لیکن ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کے مستقبل کے حوالے سے غافل ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں