’ميں چار سو يورو ماہانہ کے ليے جرمنی نہيں آيا تھا‘
عاصم سلیم
8 جولائی 2018
شامی مہاجر نبيل ابو حماد کا کہنا ہے کہ يہ تاثر کہ جرمنی ميں پناہ کی فراہمی و ديگر سہوليات ميں مسيحیوں کو ترجيح دی جاتی ہے، قطعی طور پر غلط ہے۔ دمشق سے تعلق رکھنے والا يہ تارک وطن جرمنی ميں پناہ کا متلاشی ہے۔
اشتہار
’’ميں جس مہاجر کيمپ ميں رہتا ہوں، وہاں تقريباً چار سو تارکين وطن آباد ہيں‘‘ نبيل ابو حماد نے انفو مائگرينٹس کو بتايا۔ جرمن شہر فرينکفرٹ کے نواح ميں واقع اس مہاجر کيمپ ميں ہر تيس افراد کے ليے ايک بيت الخلاء کا انتظام ہے جب کہ ہر ساٹھ افراد کے ليے ايک باورچی خانہ دستیاب ہے۔ نبيل کے بقول ڈھائی برس سے زائد عرصے تک ايسے حالات ميں رہنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ستائيس سالہ نبيل کے مطابق نہ تو اب تک اسے سياسی پناہ مل سکی ہے اور نہ ہی رہائش، تعليم اور زندگی ميں آگے بڑھنے کے مواقع۔ اسی تناظر ميں اب وہ کہتا ہے، ’’يہ تاثر کہ جرمنی ميں سياسی پناہ کی فراہمی و ديگر معاملات ميں کيتھولک مسيحی مذہب کے ماننے والوں کو ترجيح دی جاتی ہے، قطعی طور پر غلط اور بے بنياد ہے۔‘‘
نبيل سن 2015 کے اختتام پر سياسی پناہ کے ليے جرمنی آيا تھا۔ وہ شامی دارالحکومت دمشق ميں اليکٹريکل انجينيئرنگ پڑھ رہا تھا تاہم جب خانہ جنگی اس کے شہر تک پہنچی، تو اس نے فيصلہ کيا اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کے ليے وطن چھوڑنے کا وقت آ گيا ہے۔ نبيل اپنی تعليم مکمل کرنے اور ذاتی زندگی کو آگے بڑھانے کے ارادوں کے ساتھ جرمنی آيا تھا ليکن قريب ڈھائی برس بعد آج وہ اپنے فيصلے پر نظر ثانی کر رہا ہے کيونکہ وہ جنگ کی تباہ کاريوں سے محفوظ ضرور ہے ليکن اس کی زندگی جيسے رک سی گئی ہے۔
نبيل بتاتا ہے، ’’ميں ستائيس برس کا ہوں۔ اب ميں شادی کرنا چاہتا ہوں، اپنی تعليم مکمل کرنا چاہتا ہوں اور پھر ملازمت کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے ليے ايک روشن مستقبل تعمير کر سکوں تاہم سالہا سال تک مہاجر کيمپ ميں رہنے سے يہ کيسے ممکن ہو سکتا ہے؟‘‘ اس نے انفومائگرينٹس سے بات کرتے ہوئے مزيد کہا کہ کوئی مہاجر يہاں چار سو يورو ماہانہ وصول کرنے نہيں آتا بلکہ اس ليے آتا ہے کہ اس ملک ميں دستياب تحفظ اور تعليم کی سہوليات سے مستفيد ہو سکے اور آگے بڑھ سکے۔
نبيل ابو حماد کے مطابق وہ مہاجر کيمپ ميں ايک کمرے ميں رہتا ہے، جس ميں اس کے ساتھ ايک اور لڑکا بھی ہے۔ ’’جب مجھے سونا ہوتا ہے، تو اسے موسيقی سننی ہوتی ہے۔ جب مجھے پڑھنا ہوتا ہے، تو اسے دوستوں کے ساتھ کمرے ميں کھانا کھانا ہوتا ہے۔ علاوہ ازيں وہ صفائی کا بالکل خيال نہيں رکھتا جبکہ مجھے گندگی ميں نيند تک نہيں آتی۔‘‘ اس شامی تارک وطن کے بقول سننے ميں يہ آسان لگتا ہے ليکن ايک بالکل ہی مختلف معاشرے کے کسی فرد کے ساتھ، جس سے آپ بات بھی نہ کرسکتے ہوں، طويل بنيادوں پر رہنا کسی آزمائش سے کم نہيں۔
نبيل کے مطابق وہ اس سلسلے ميں کئی مرتبہ حکام سے رجوع کر چکا ہے تاہم اسے ہر بار يہی جواب ملتا ہے کہ مکان کے حصول کے ليے وہ اپنے تئیں کوشش کر سکتا ہے۔ مہاجرين کے بحران کے تناظر ميں جرمنی کے تقريباً تمام ہی شہروں ميں مکانات کی قلت ہے۔ ايسے ميں نبيل کی کوششيں اب تک کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔
شامی تارک وطن نبيل آج اس سوچ ميں مبتلا ہے کہ آيا جرمنی آنے کا فیصلہ درست تھا۔ اس کے بقول يہ سچ ہے کہ وہ يہاں محفوظ ہے ليکن اس طرح دستاويزی کارروائی، مکان کے ليے الجھن ميں پڑھنے اور صرف جرمن زبان سيکھنے سے اس کا وقت ضائع ہوتا جا رہا ہے۔
مہاجرين اور اين جی اوز کے ساتھ يکجہتی، جرمن شہری سڑکوں پر
ہزاروں کی تعداد ميں جرمن شہريوں نے بحيرہ روم ميں مہاجرين کو ريسکيو کرنے والی غير سرکاری تنظيموں کے حق ميں مظاہرے کيے ہيں۔ ايسی تنظيميں ان دنوں سياسی دباؤ کا شکار ہيں اور ان کی سرگرميوں کو روک ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
برلن ميں ہزارہا افراد سراپا احتجاج
غير سرکاری تنظيموں کی مہاجرين و تارکين وطن کو ريسکيو کرنے سے متعلق سرگرميوں کو مجرمانہ فعل قرار ديے جانے پر جرمن دارالحکومت برلن سميت ديگر کئی شہروں ميں مظاہرين نے ہفتے کے روز احتجاج کيا۔ برلن کے مظاہرے ميں بارہ ہزار سے زائد افراد شريک تھے۔ علاوہ ازيں ہيمبرگ، بريمن، ميونخ اور اُلم ميں بھی احتجاج کيا گيا۔ مظاہرين نے مہاجرين کے ساتھ يکجہتی کے ليے لائف جيکٹس اٹھا رکھی تھيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
ريسکيو کرنے والوں کے ساتھ يکجہتی
ہيمبرگ کے مظاہرے ميں شريک ايک خاتون ’زے برؤکے‘ کے نام سے سرگرم رضاکاروں کے اتحاد کے ساتھ يکجہتی کے طور پر نارنجی رنگ کی لائف جيکٹس اور ديگر کپڑے لٹکاتے ہوئے ہے۔ نيچے لکھی تحرير کا مطلب ہے، ’سمندر ميں انسانوں کی جانيں بچانا جرم نہيں۔‘ ’زے برؤکے‘ کے لفظی معنی ’سمندر ميں پل‘ ہيں اور يہ اتحاد اس واقعے کے بعد وجود ميں آيا، جس ميں ایک بحری جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہيں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
سب سے جان ليوا سمندری گزر گاہ
برلن ميں نکالے گئے مظاہرے ميں شريک دو خواتين جن کے پلے کارڈ پر لکھا ہے ’انہيں سمندر ميں بھولنا نہيں‘۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2018ء ميں اس سے پچھلے برسوں کے مقابلے ميں مہاجرين کی بحيرہ روم کے راستے آمد ميں خاطر خواہ کمی تو نوٹ کی گئی ہے تاہم يہ سال کافی جان ليوا بھی ثابت ہوا ہے۔ رواں سال اب تک چودہ سو سے زيادہ افراد بحير روم ميں ڈوب کر ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’بندرگاہيں کھول دو‘
متعدد اين جی اورز پچھلے دنوں کئی يورپی سياستدانوں کی تنقيد کا نشانہ بنتی رہی ہيں۔ چند ممالک نے مہاجرين سے لدے جہازوں کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دی يا پھر کافی تاخير سے اجازت دی۔ ايسے يورپی رہنما الزام عائد کرتے ہيں کہ ريسکيو سرگرميوں ميں ملوث غير سرکاری تنظيميں انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں ميں کھيل رہی ہيں۔ اين جی اوز کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنا کام نہ کريں تو کئی انسانی جانيں ضائع ہو سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
جرمن حکومت کی پاليسيوں پر برہمی
مظاہرے ميں شريک ايک شخص نے ايک تختی اٹھا رکھی ہے جس پر لکھا ہے، ’زيہوفر کی جگہ زیبرؤکے۔‘ يہ جرمن وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر کی پناہ گزينوں کے حوالے سے سخت پاليسی پر ايک طنزيہ جملہ ہے۔ زيہوفر کے اسی موضوع پر جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کے ساتھ اختلافات نے وفاقی حکومت کو بھی کافی پريشان کر رکھا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت کو دوبارہ ايک بحران کا سامنا تھا جو بظاہر فی الحال ٹل گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’يورپ کی سرحديں بند رکھنے کی ذہنيت‘
جرمنی ميں ہفتہ سات جولائی کے روز نکالے گئے ان مظاہروں ميں شامل بيشتر افراد نے مہاجرين کو محفوظ راستے فراہم کرنے کی ضرورت پر زور ديا۔ انہوں نے ’فورٹريس يورپ‘ يا اس سوچ کی مخالفت کی کہ تمام اطراف سے سرحديں بند کر کے يورپ کو ايک قلعے کی مانند پناہ گزينوں کے ليے بند کر ليا جائے۔