مُلا کلینک میں منشیات کے عادی افراد کا علاج تشدد سے
25 جولائی 2014چرس کے عادی نور رحمان نے تین برس کیڑے مکوڑوں سے بھری کنکریٹ کی سلیب کے ساتھ زنجیروں سے پیوست ہو کر گزارے ہیں۔ مار پیٹ کا شکار ہوکر اور بھوکا رہتے رہتے نور رحمان اپنی بینائی سے محروم ہو چُکا ہے۔
پاکستان کے مُلا الیاس قادری اس قسم کے مریضوں کو شفاء بخشنے کے لیے اپنا کلینک چلا رہا تھا، جہاں منشیات کے عادی افراد کو نہ صرف زبردستی رکھا جاتا تھا بلکہ اُنہیں زور و جبر کے ساتھ قرآن پڑھنے پر بھی مجبور کیا جاتا تھا۔ اس کلینک میں طریقہ علاج اذیت رسانی اور مریضوں کو بھوکا رکھنا تھا۔
اسلام آباد سے 80 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک پہاڑی مقام ہری پور میں قائم مُلا الیاس قادری کے کلینک پر گزشتہ ہفتہ پولیس نے چھاپہ مارا اور وہاں سے 115 مریض برآمد کیے، جو زنجیروں اور بیڑیوں سے زمین سے جکڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مریضوں کو رہائی نصیب ہو گئی ہے اور ملا الیاس کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 20 مریض، جن میں نور رحمان بھی شامل ہے، اپنے گھر والوں کا منتظر ہے کہ وہ آئیں اور انہیں اس جہنم سے نکال کر لے جائیں۔
سماجی پسماندگی اور قانونی کوتاہی
مُلا کلینک پاکستان کے قدامت پسند مذہبی حلقے میں بھی انتہا پسندی کی حد تصور کیا جاتا ہے تاہم اس قسم کے اداروں کی ملک میں موجودگی اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایک قدامت پسند اسلامی معاشرے میں منشیات کی لعنت کو کس حد تک غلط سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو ایک مختلف نکتہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ معاشرے میں قانونی نگرانی کی عدم موجودگی مُلا کلینک اور دیگر ذہنی امراض کے ہسپتالوں کے وجود کا سبب ہیں، جہاں منشیات کے عادی یا دیگر نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کے گھر والے اُن سے جان چھُڑانے کے لیے، انہیں وہاں ڈال دیتے ہیں۔
مُلا الیاس قادری کا طریقہ علاج
مریضوں کو کلینک سے فرار ہونے کا موقع نہ مل سکے اور کہیں وہ دوبارہ منشیات کی طرف نہ بڑھیں، اس غرض سے مُلا الیاس نے اُنہیں رات دن آہنی زنجیروں سے جکڑ کر رکھا تھا۔ مریضوں کو محض چند لمحوں کے لیے ٹائلٹ تک جانے کی اجازت دی جاتی تھی ، وہ بھی اس طرح کے وہ اپنے ساتھی مریض کے ساتھ زنجیروں سے جُڑی ہوئی حالت میں ہی ٹائلٹ جا سکتے تھے۔
اس پر کسی قسم کے احتجاج کی صورت میں ان دونوں مریضوں کو مُلا الیاس اور اُس کے چار گارڈز یا محافظ کی طرف سے زدو کوب کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
نور رحمان کے بقول، " ہمارے ساتھ اتنی زیادہ جسمانی زیادتیاں ہوئیں کہ آخر کار ہم میں سے بہت سے قیدی ذہنی مریض بن گئے۔ نور دو برس تک اس کلینک میں رہنے کے بعد کوئی آٹھ ماہ قبل اپنی آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو گیا تھا۔ اُس نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ذہنی دباؤ اور اسٹرس کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کی ابتر صورتحال کا بھی میری بینائی ختم ہونے سے گہرا تعلق ہو سکتا ہے۔‘‘
پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد
1980ء کے عشرے سے پڑوسی ملک افغانستان سے اسمگل ہو کر پاکستان آنے والے افیون کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اس طرح پاکستان منشیات کی سستی ترین قسم یعنی چرس کا گڑھ بن گیا۔
اقوام متحدہ کے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت بھنگ کے عادی افراد کی تعداد چار ملین سے زیادہ ہے جبکہ آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار افراد ہیروئن کے استعمال کے عادی ہیں۔ عالمی ادارے مطابق 2000 ء کے مقابلے میں یہ تعداد دوگنا ہو چُکی ہے۔