مگرمچھوں سے ڈرا ہوا برہنہ شخص: ’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘
6 جنوری 2021
آسٹریلیا میں ایک شخص ساحلی جنگلاتی علاقے میں بےشمار مگرمچھوں کے ڈر سے برہنہ حالت میں ایک درخت پر چڑھ کر کئی روز تک وہاں بیٹھا رہا۔ اسے مقامی ماہی گیروں نے بچایا مگر بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ وہ ایک مفرور مجرم تھا۔
اشتہار
شمالی آسٹریلیا میں یہ واقعہ ڈارون نامی شہر کے قریب گزشتہ اتوار کے روز پیش آیا۔ کیون جوائنر اور کیم فاؤسٹ نامی دو مقامی ماہی گیروں نے مچھلیاں پکڑنے کے بعد سمندر سے واپسی پر دیکھا کہ ساحلی علاقے میں درختوں کے ایک جھنڈ میں ایک ایسا شخص ایک درخت پر بیٹھا ہوا تھا، جو برہنہ تھا اور مد د کے لیے پکار رہا تھا۔
کیون جوائنر نے نائن نیوز نامی نشریاتی ادارے کو بدھ چھ جنوری کے روز بتایا، ''وہ بلند آواز میں مدد کی درخواست کر رہا تھا۔ ہم نے اس بے لباس شخص کی درخت سے نیچے اترنے میں مدد کی۔ اس کا سارا جسم خشک ہو چکے کیچڑ میں لتھڑا ہوا تھا اور اس پر جگہ جگہ مچھروں کے کاٹے کے نشانات تھے۔‘‘
خشک اور دم توڑتے ہوئے درخت، آخری سانسیں لیتے ہوئے لاغر جانور اور بھیڑیں، یہ سب نیو ساؤتھ ویلز میں آنے والی تباہی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں اس خشک سالی کی یہ تصاویر دل دہلا دینے والی ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Gray
تباہی
ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہوا یہ پرانا درخت آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے علاقے ٹیم ورتھ کی سنگین صورتحال کو عیاں کر رہا ہے۔ سردی کے باوجود نیو ساؤتھ ویلز ریاست سو فیصد قحط سالی کا شکار ہو چکی ہے۔ شمالی ریاست کوئینزلینڈ میں بھی خشک سالی پھیلتی جا رہی ہے۔ ابھی یہ خشک سالی کئی ماہ تک جاری رہے گی۔
تصویر: Reuters/D. Gray
کیا یہ مریخ ہے؟
اس سرخ زمین پر جو نظر آ رہا ہے، وہ ایک کینگرو کا سایہ ہے، جو ایک واٹر ٹینک سے پانی پینے کی کوشش میں ہے۔ یہ فارم ہاؤس نیو ساؤتھ ویلز کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ جون کے آغاز سے مسلسل قحط سالی نے یہاں بہت کچھ تباہ کر دیا ہے۔ فارم ہاؤس کے مالک ایش وٹنی کہتے ہیں، ’’میری ساری زندگی یہاں گزری ہے لیکن میں نے پہلے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
بقا کی جنگ
بھیڑیں آسٹریلوی زرعی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہیں۔ ان کی اون اور گوشت کو بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اب چارہ نہ ہونے کے باعث کسان اپنی بھیڑوں کو خود ہی گولی مار کر ہلاک کر دیتے ہیں تاکہ کم از کم گوشت ہی حاصل کر لیا جائے۔ حکومتی ریلیف پیکج بھی کسانوں کو ہونے والے مالی نقصانات کی تلافی نہیں کر سکتا۔
تصویر: Getty Images/B. Mitchell
موسمیاتی تبدیلیاں
کبھی یہاں سرسبز فصلیں لہراتی تھیں لیکن اب صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس علاقے کے کسان گریگ اسٹونز یہاں اناج کے ساتھ ساتھ جانور پالتے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ’’انیس سو تیس کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہم موسم سرما اور خزاں میں یہاں کوئی فصل نہیں اگا سکے۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
ریگستان؟
گریگ اسٹونز کہتے ہیں، ’’زمین انتہائی خشک ہو چکی ہے۔ ہم نے اپنے جانوروں کو دوسرے علاقے میں منتقل کر دیا ہے تاکہ انہیں کچھ کھانے کو مل سکے۔‘‘ اس خشک سالی سے بچاؤ کے لیے کسانوں نے پانی ایسے بڑے بڑے ٹینکوں میں جمع کیا تھا لیکن اب یہ ذخیرہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Gray
اناج ٹرین
بھیڑوں کو زندہ رکھنے کے لیے اس طرح ایک لمبی لائن میں اناج مہیا کیا جا رہا ہے۔ کبھی اس علاقے میں زمین انتہائی شاداب تھی۔ لیکن اب بھیڑوں کو خوراک مہیا کرنے پر اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے کسانوں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’ایسی وسیع تر قحط سالی ہم نے گزشتہ نصف صدی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
بہت دیر ہو چکی!
کسان اب درختوں کی ٹہنیاں توڑ کر اپنے جانوروں کو کھلا رہے ہیں۔ متاثرین کو اب مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے لیکن مقامی کسانوں کے مطابق اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اب صرف ایک ہی امید باقی بچی ہے، اور وہ امید ہے بارش۔
تصویر: Reuters/D. Gray
بنجر زمین
براعظم آسٹریلیا میں خشک سالی جیسی تبدیلیاں قدرتی ہیں۔ یہ تصویر سن دو ہزار چودہ میں کوئینزلینڈ میں لی گئی تھی۔ اس وقت اس ریاست کا تقریباﹰ اسی فیصد حصہ خشک سالی سے متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Getty Images/L. Maree
بدترین خشک سالی
آسٹریلوی وزیر اعظم میلکم ٹرن بل نے ملکی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں خشک سالی سے متعلق اپنے ایک خطاب میں کہا، ’’اب ہم خشک سالی والا ملک بن چکے ہیں۔‘‘ صرف آسٹریلیا ہی میں نہیں، دنیا بھر میں خشک سالی کئی علاقوں کو بنجر کرتی جا رہی ہے۔
تصویر: AP Photo/Peter Lorimer
9 تصاویر1 | 9
مقامی میڈیا کے مطابق ان ماہی گیروں نے بتایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ شخص اس درخت پر کیا کر رہا تھا۔ ان کی رائے میں وہ کئی دنوں سے اس درخت پر چڑھا ہوا تھا۔
کیم فاؤسٹ کے مطابق، ''اسے مدد کی ضرورت تھی، وہ جسمانی طور پر پانی کی کمی کا شکار ہو چکا تھا۔ ہم نے اسے پہننے کے لیے شارٹس دیں، پینے کے لیے ایک بیئر اور پھر اسے ڈارون پہنچا دیا۔‘‘
ہسپتال میں ہی گرفتاری
ان دونوں مقامی ماہی گیروں نے اس شخص کو علاج اور طبی دیکھ بھال کے لیے ڈارون شہر کے ایک ہسپتال میں پہنچا دیا تھا۔ جب پولیس کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو ایک پولیس ٹیم اس لیے ہسپتال پہنچ گئی کہ حقائق کا پتا چلا لیا جائے۔
گریٹ بیریئر ریف کے سبز کچھووں کی بقا کو شدید خطرات لاحق
گرم ہوتے ہوئے ماحول کی وجہ سے آسٹریلیا کے علاقے گریٹ بیریئر ریف میں پائے جانے والے سبز نسل کے سمندری کچھووں کے ہاں صرف مادہ کچھوے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس طرح کچھووں کی اس نسل کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
تصویر: Imago/Imagebroker/N. Probst
صرف مادہ ہی باقی بچیں گی؟
دنیا بھر میں سبز سمندری کچھوے گریٹ بیریئر ریف میں ہی سب سے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ محقیقن نے حال یہ پریشان کن انکشاف کیا ہے کہ اس علاقے میں اب صرف مادہ کچھوے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس پورے علاقے میں دیے جانے والے انڈوں میں سے صرف ایک فیصد سے نر بچے نکل رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس نسل کے خاتمے کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Prisma/R. Mohammed
نر کچھووں کو گرمی برداشت نہیں
کچھوے جب انڈے دیتے ہیں تو اس وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ اس سے نکلنے والا بچہ نر ہو گا یا مادہ ۔ جنس کا تعین اس علاقے کا درجہ حرارت کرتا ہے، جہاں پر یہ انڈے دیے جاتے ہیں۔ ریت جس قدر گرم ہو گی مادہ کچھوا پیدا ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اگر درجہ حرارت 29.9 ڈگری سینٹی گریٹ یا اس سے تجاوز کرے گا تو نر پیدا ہی نہیں گا۔
تصویر: Imago/Nature Picture Library/Zankl
نر اور مادہ میں فرق مشکل
ابتدائی مراحل میں کچھوے کی جنس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اسی وقت واضح ہوتا ہے جب کچھوے مکمل طور پر بڑے ہو جاتے ہیں اور اس عمل میں بیس سال لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مادہ کچھووں میں ہونے والے اس ہوش ربا اضافے کے بارے میں فوری علم نہیں ہو سکا۔
تصویر: Imago/imagebroker
پریشان کن اعداد و شمار
امریکا اور آسٹریلیا کے محققین نے سبز سمندری کچھووں کے جنس کے بارے میں جاننے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا ہے۔ اس طرح کچھوے کے بچوں کے ڈی این اے اور خون ٹیسٹ کرتے ہوئے جنس معلوم کی جائے گی۔ تاہم انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ آج کل گریٹ بیریئر ریف میں پائے جانے والے نوے فیصد کچھوے مادہ ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Kolben
شاذ و نادر جنسی ملاپ
نر کچھووں کی تعداد میں کمی صرف سبز سمندری کچھووں کا ہی مسئلہ نہیں۔ عام طور پر بھی کچھوے پندرہ سال کی عمر میں جنسی ملاپ کے قابل ہوتے ہیں اور یہ ہر تین سال میں ایک مرتبہ جنسی عمل سے گزرتے ہیں۔ ارتقائی حوالے سے بات کی جائے تو مادہ کچھووں کی تعداد میں معمولی سا اضافہ غیر معمولی بات نہیں تاہم نر کے نہ ہونے سے کچھوے ناپید ہو جائیں گے۔
تصویر: Imago/StockTrek Images
ایک وقت میں دو سو بچے
مادہ کچھوے انڈے دینے کے لیے کئی مرتبہ ساحلوں پر آتی ہیں۔ بحرالکاہل پر ’رینے آئی لینڈ بیچ‘ سبز سمندری کچھووں کی افزائش کے اعتبار سے سب سے بڑا علاقہ ہے۔ یہاں پر انڈوں کے موسم میں اٹھارہ ہزار تک کچھوے موجود ہوتے ہیں۔ سورج کی مناسب گرمی اور ریت میں دیر تک دبے رہنے کے بعد انڈے سے بچے نکل کر پانی کا رخ کرتے ہیں۔ پھر یہ اسی وقت ساحل پر آتے ہیں، جب انہیں انڈے دینا ہوتے ہیں۔
تصویر: Imago/Zuma Press
کم ہوتے ہوئے نر کچھوے
محققین کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں مادہ کچھووں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں نے ہوائی کے ساحلوں اور مغربی بحرالکاہل میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبز سمندری کچھووں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ ابتداء میں ہی جنس کے تعین کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے یہاں بھی حیران کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
خطرنک حدت
آسٹریلوی محققین کا مرتب کردہ یہ جائزہ دیگر جانوروں کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں۔ چھپکلیوں اور دیگر رینگنے والے جانوروں کے ہاں بھی درجہ حرارت جنس کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ الیگیٹرز کے ہاں معاملہ بالکل مختلف ہے، جتنی گرمی ہو گی انڈوں سے اتنے ہی نر بچے نکلیں گے۔
تصویر: Imago/OceanPhoto
8 تصاویر1 | 8
جب پولیس اہلکار ہسپتال پہنچے تو انہوں نے وہیں پر اس شخص کو گرفتار کر کے اس کے کمرے کے باہر گارڈ بٹھا دیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ شخص ماضی میں مسلح ڈکیتی کی متعدد وارداتوں میں سزا یافتہ تھا اور اپنی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مفرور اور لاپتا ہو گیا تھا۔
اس مفرور مجرم کو بچانے والے دونوں ماہی گیروں کو جب اس کے مطلوب ہونے کی وجہ سے گرفتاری کا علم ہوا، تو انہوں نے مقامی میڈیا کو بتایا، ''ہمیں تو اس نے کہا تھا کہ وہ راستہ بھول گیا تھا اور پھر مگرمچھوں کے خوف سے پانی میں نہاتے ہوئے برہنہ ہی ایک درخت پر چڑھ گیا تھا۔ ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ ماضی میں مسلح ڈکیتیوں کا مرتکب ہوا تھا۔‘‘
یہ مجرم اس وقت پولیس کی نگرانی میں رائل ہسپتال ڈارون میں زیر علاج ہے اور ہسپتال سے فارغ کیے جانے کے بعد اسے جیل منتقل کر دیا جائے گا۔
م م / ع ب (اے ایف پی)
مگر مچھوں کی دنیا میں خوش آمدید
تھائی لینڈ میں دنیا کے سب سے بڑے مگرمچھوں کے فارم ہیں۔ ان فارموں میں سیاح مگرمچھوں کو دھوپ سینکتے، مرغیوں کو چبا چبا کر کھاتے اور گہرے سبز رنگ کے پانی سے بھرے تالاب میں مستی کرتے دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
بارہ لاکھ مگرمچھوں کے فارم
تھائی لینڈ میں مگرمچھوں کے ایک ہزار سے زائد فارم ہیں جن میں قریب بارہ لاکھ مگرمچھ رہتے ہیں۔ بہت سے فارموں میں مذبح خانے بھی ہیں جہاں مگرمچھوں کی کھال حاصل کر کے اُن سے لگژری مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
مگرمچھوں کا سب سے بڑا گھر
شری آیوتھایا نامی فارم تھائی لینڈ میں مگر مچھوں کی افزائش کے لیے بنائے گئے بڑے فارموں میں سے ایک ہے۔ یہ 35 سال سے کام کر رہا ہے اور اس میں تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ مگرمچھ رہتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
مگر مچھوں کی کھال سے مصنوعات
شری آیوتھایا کروکوڈائل فارم خطرے سے دوچار حیاتیات کے کاروبار سے منسلک بین الاقوامی معاہدے کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ اس فارم کو یہاں موجود مگرمچھوں سے تیار کردہ مصنوعات بر آمد کرنے کی قانونی اجازت حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
قدیم حیاتیات
مگر مچھ زمین پر موجود قدیم ترین جانوروں میں سے ایک ہیں۔ تاہم اب ان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ دوسری جانب مگر مچھوں کی افزائش نسل کے لیے کئی ممالک میں ان کی فارم بنائے گئے ہیں۔ تھائی لینڈ کے علاوہ میکسیکو میں بھی کروکوڈائل فارم موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
سب سے بڑا خریدار چین
چین مگر مچھوں کے چمڑے سے بنائی گئی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ آیوتھایا فارم کے مالک وچیان رائینگنیٹ کا کہنا ہے،’’ ہم مگرمچھوں کی افزائش نسل سے لے کر اُن کی کھال سے مصنوعات بنانے تک سب کچھ کرتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
چمڑے سے بنے مہنگے بیگ اور سوٹ
مگر مچھ کے چمڑے سے بنا برکن اسٹائل ایک ہینڈ بیگ تقریباﹰ ڈھائی ہزار ڈالر میں بِکتا ہے اور اگر آپ کو اس کا سوٹ خریدنا ہے تو پھر 6،000 ڈالر تک خرچ کرنا ہوں گے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
مگرمچھ کا گوشت بھی مہنگا
چمڑے کے علاوہ مگرمچھ کا گوشت بھی بیچا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ میں مگرمچھ کا ایک کلو گوشت تین سو بھات تک میں فروخت کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
برآمد میں کمی
تھائی لینڈ میں مگر مچھ کی مصنوعات کی صنعت کو بحران کا سامنا بھی ہے۔ تھائی لینڈ کی وزارت تجارت کے مطابق سن 2016 میں مگر مچھ کے چمڑے سے بنی مصنوعات کی برآمد میں ساٹھ فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
مگرمچھ سے شرارت
تھائی لینڈ کے لوگ مگرمچھوں سے تفریح کا کام بھی لیتے ہیں۔ اب اس شخص ہی کو لیجیے جو مگر مچھ کے منہ میں اپنا سر ڈال رہا ہے۔ لیکن اس آدمی کو اور مگر مچھ کو بھی اس کی خاص ٹریننگ ملی ہے۔ اس لیے آپ ایسا کرنے کا خیال بھی کبھی دل میں نہیں لائیے گا۔