مہاتیر کا اسلامی سمٹ کا دفاع، اسلام کی موجودہ حالت پر افسوس
19 دسمبر 2019
ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کوآلا لمپور میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کی سمٹ کے انعقاد کا دفاع کرتے ہوئے اسلام کی موجودہ حالت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب اس سمٹ کے انعقاد پر ناخوش اور پاکستان غیر حاضر تھا۔
اشتہار
مہاتیر محمد، جو ملائیشیا کے سربراہ حکومت کے طور پر اس سربراہی اجلاس کے میزبان ہیں، نے کہا کہ مسلمان ممالک کی یہ سمٹ منعقد ہونا ہی چاہیے تھی۔ یوں ان کا یہ موقف اسی اجلاس کے بارے میں سعودی عرب کی رائے کے بالکل برعکس ہے، جس نے نہ صرف کوآلا لمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ہوتے ہوئے، جو ایک زیادہ بڑا پلیٹ فارم ہے، یہ اجلاس نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ستاون میں سے صرف بیس کے قریب ممالک
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس وقت مسلم دنیا میں پائی جانے والی تقسیم اس طرح بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے اور اس سمٹ کے لیے ان تمام ستاون ممالک کو دعوت دی گئی تھی۔ لیکن ان میں سے صرف 20 کے قریب ممالک کے رہنما ہی کوآلا لمپور گئے یا انہوں نے اپنے نمائندے وہاں بھیجے۔
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے اگر اس سمٹ میں شرکت سے انکار کر دیا تھا تو سعودی عرب کے قریبی اتحادی ملک پاکستان نے بھی تقریباﹰ آخری وقت پر اس اجلاس میں اپنی شرکت سے معذرت کر لی۔ اس پر میزبان مہاتیر محمد کو شرکت نہ کرنے والے ممالک کے ساتھ تعلقات کو ممکنہ طور پر بددلی کا شکار ہو جانے سے بچانے کی کوششیں بھی کرنا پڑیں۔
سمٹ کا مقصد
وزیر اعظم مہاتیر محمد کے بقول اس سربراہی اجلاس کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ آج اسلام، مسلمان اور ان کے ممالک ان 'بحرانوں، لاچاری اور بےقدری کا شکار کیوں ہیں جو کہ اس عظیم مذہب (اسلام) سے مطابقت نہیں رکھتے‘۔
اس سمٹ کے کسی باقاعدہ ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا لیکن عام توقع یہی تھی کہ اجلاس میں شریک رہنما ان سیاسی جغرافیائی مسائل، بحرانوں اور تنازعات پر تبادلہ خیال کریں گے، جن کا دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کو سامنا ہے۔
ایسے بحرانوں اور تنازعات میں مشرق وسطیٰ اور کشمیر جیسے انتہائی دیرینہ تنازعات سے لے کر شام اور یمن کی جنگیں، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی المناک صورت حال اور چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ مبینہ زیادتیوں تک سبھی کچھ شامل ہو سکتا تھا۔ مگر نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ بات بھی واضح نہیں کہ اگر شرکاء میں ان میں سے کچھ یا سارے ہی معاملات پر کوئی مکمل یا جزوی اتفاق رائے ہو سکتا ہے، تو وہ کتنا مؤثر اور کس حد تک قابل عمل ہو گا۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اس سمٹ کی میزبانی کرتے ہوئے جمعرات انیس دسمبر کے روز کہا کہ اس سمٹ کو اسلام سے متعلق ان تصورات کا تدارک کرنا چاہیے، جو اسلاموفوبیا جیسے جذبات اور اسلامی تہذیب کے زوال کی وجہ بنتے ہیں اور ساتھ ہی اس طرف بھی دھیان دینا چاہیے کہ مسلم اقوام کو اس وقت حکومت سازی میں اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔
'کسی کو الگ تھلگ نہیں کر رہے،‘ مہاتیر
اس اسلامی سمٹ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، جب حاضرین میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن، ایرانی صدر حسن روحانی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی جیسے رہنما بھی بیٹھے تھے، مہاتیر محمد نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور زور دیا، ''ہم یہاں نہ تو کسی کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ اختیار کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی کو الگ تھلگ کرنے کی کوئی کوشش۔‘‘
ملائیشیا کے وزیر اعظم نے کہا، ''ہم ایک چھوٹے سے آغاز کی کوشش میں ہیں۔ اور اگر اس اجلاس میں سامنے آنے والے خیالات،تجاویز اور مجوزہ حل قابل قبول اور قابل عمل ہوئے، تو پھر ہم مزید غور و فکر کے لیے انہیں زیادہ بڑے پلیٹ فارم پر بھی لے جائیں گے۔‘‘
ایردوآن کی سوچ بھی ایسی ہی
اس سمٹ سے اپنے خطاب میں ترک صدر ایردوآن نے بھی تقریباﹰ ایسی ہی بات کی، ''اس اجلاس میں ہمارے پاس موقع ہو گا کہ ہم اسلاموفوبیا، دہشت گردی، تقسیم، علاقائی سطح پر داخلی لڑائیوں، فرقہ واریت اور نسلی تنازعات جیسے مسائل پر کھل کر بات چیت کر سکیں۔‘‘
مہاتیر محمد کی طرح ایردوآن بھی اسلامی تعاون کی تنظیم کے ماضی کے ریکارڈ سے اس وجہ سے دلبرداشتہ ہیں کہ یہ تنظیم، جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نمائندہ ہے اور جس کے صدر دفاتر سعودی عرب میں ہیں، داخلی اختلافات کا شکار بھی رہی ہے اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام بھی۔ صدر ایردوآن کے مطابق اسلامی دنیا کو جوڑنے والے پلیٹ فارمز کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں عملیت پسندی کا فقدان ہوتا ہے۔ ایردوآن نے اپنے خطاب میں او آئی سی کا نام لے کر ذکر نہ کیا۔
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
8 تصاویر1 | 8
مسلم دنیا کی ناکامی کی وجوہات
ترک صدر ایردوآن کے مطابق، ''اگر ہم آج تک فلسطین کے تنازعے میں کوئی پیش رفت نہیں دکھا سکے، اگر ہم اپنے وسائل کے لوٹ لیے جانے کو نہیں روک سکو، اگر ہم آج تک اپنے مسائل کے آگے بند نہیں باندھ سکے، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم فرقہ واریت کے باعث مسلم دنیا میں تقسیم کا قلع قمع بھی نہیں کر سکے۔ وجہ یہی ہے۔‘‘
پاکستان کی غیر حاضری کی وجہ
پاکستان نے، جو دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی طاقت ہے، کوآلا لمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان محض چند روز قبل کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے طور پر اس بات سے بچنا چاہتے تھے کہ وہ فریقین میں سے کسی ایک کی طرف داری کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
اس بارے میں پاکستانی وزیر اعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا، ''پاکستان مسائل کے حل کا حصہ بننا چاہتا ہے، مسائل کا حصہ نہیں۔‘‘
کوآلا لمپور کی یہ اسلامی سمٹ ہفتہ اکیس دسمبر کو اپنے اختتام کو پہنچے گی۔
م م / ک م (روئٹرز، اے ایف پی)
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔