1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

عالمی سلامتی کے لیے بڑے چیلنجز: مہاجرت اور روس

13 فروری 2024

رواں برس میونخ سکیورٹی کانفرنس کے لیے کیے گئے ایک جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ روس کے خطرے سے بھی زیادہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب ہونے والی نقل مکانی سے خوفزدہ ہیں۔ عوام سائبر حملوں اور اے آئی کے اثرات سے بھی پریشان ہے۔

USA Rio Grande Eagle Pass Grenze zu Mexiko
تصویر: Maria Alejandra Cardona/REUTERS

سن 2024 کی میونخ سکیورٹی کانفرنس (ایم ایس سی) کے چیئرمین کرسٹوف ہیوسجن نے کانفرنس سے متعلق 'سکیورٹی رپورٹ' میں لکھا ہے کہ رواں برس دنیا کی ''عالمی سیاست کا رجحان تنزلی کا شکار رہے گا، جبکہ جغرافیائی سیاسی تناؤ اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے بھی دو چار رہے گا۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس: یوکرین کے لیے مدد جاری رہے گی، جرمن چانسلر

اس ہفتے میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں انتہائی اہم اجتماع سے پہلے یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے۔

’جرمنی یوکرین جنگ کے امن منصوبے میں علاقوں کے نقصانات کو رد کرتا ہے‘

سولہ سے 18 فروری تک چلنے والی اس کانفرنس میں دنیا بھر کے فوجی اہلکار، سکیورٹی ماہرین اور سرکردہ سیاست دان ایک بار پھر جنوبی جرمنی کے شہر میونخ میں ملاقات کریں گے، جس میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کی بھی شرکت متوقع ہے۔

بوسنیا کی تقسیم قطعاﹰ قبول نہیں کریں گے، یورپی یونین

گزشتہ برس کی کانفرنس سے قبل شائع ہونے والے میونخ سکیورٹی انڈیکس سروے میں روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کو سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا، خاص طور پر دنیا کی سات ترقی یافتہ جی سیون ممالک میں یہ رجحان دیکھا گیا تھا۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس شروع، یوکرائنی بحران حاوی

لیکن موجودہ سروے میں، جس کے لیے ایم ایس سی نے بھارت، برازیل، چین اور جنوبی افریقہ سمیت جی سیون ممالک کے 12 ہزار افراد سے سوال کیا،''جنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے سبب نقل مکانی'' کو اب روس کی جارحیت سے بھی زیادہ اہم سمجھا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر اور نومبر میں سروے کے دوران جن افراد سے یہ سوال کیا گیا وہ اب یوکرین میں جاری جنگ کے عادی ہو چکے ہیں۔

چین دوست ہے، حریف ہے، یا دونوں؟

ایم ایس سی نے یوکرین کے باشندوں سے ''جنگ بندی کے لیے قابل قبول شرائط'' کے بارے میں بھی پوچھا، جس میں تقریبا 92 فیصد نے جزیرہ نما کریمیا سمیت یوکرین سے روسی فوجیوں کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا۔ صرف 12 فیصد لوگوں نے اس بات کو قابل قبول سمجھا کہ کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق برقرار رہے۔ دو تہائی سے زیادہ سے بھی لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یوکرین جلد از یورپی یونین اور نیٹو میں شامل ہو جائے۔

چین کے ساتھ مقابلے میں مغرب اپنا اثر و رسوخ کھو رہا ہے

سروے پر مبنی اس رپوٹ کا عنوان  ''لوز-لوز؟'' یعنی خسارہ اور خسارہ ہے۔ ایم ایس سی کی اس نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ موجودہ عالمی صورتحال میں ہر کوئی نقصان اٹھا رہا ہے۔

امریکا اور یورپ میں دراڑ پر تشویش

سروے کے مطابق چین اور تائیوان کے درمیان ہند-بحرالکاہل میں فوجی تصادم کے خطرے کے ادراک میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی خود اعتمادی کے خوف نے ایک بڑی چھلانگ لگائی ہے، خاص طور پر جاپان، بھارت، امریکہ، جرمنی اور فرانس کے اندر ایسا ہوا ہے۔

سروے کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جی سیون ممالک کے لوگ چین اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافے کی توقع رکھتے ہیںتصویر: AFP

ہیوسجین سروے کے مطابق جی سیون ممالک (جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان، کینیڈا اور امریکہ) میں، ''عوام کے بڑے طبقات کو اس بات کا اب یقین ہو چلا ہے کہ ان کے ممالک 10 برس کے عرصے میں قدرے کم محفوظ اور امیر رہ جائیں گے۔''

سروے کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جی سیون ممالک کے لوگ چین اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافے کی توقع رکھتے ہیں، جس میں چین دیگر ممالک کی قیمت پر زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

عالمگیریت واپسی کی جانب 

مجموعی طور پر دنیا میں اقتصادی صورت حال پر عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے: ''سرد جنگ کے بعد کے دور میں زبردست کامیابیوں کے باوجود، مغرب کے اہم پلیئرز، طاقتور آمریتیں، اور نام نہاد گلوبل ساؤتھ کے ممالک سب کے سب جمود سے غیر مطمئن ہو چکے ہیں۔''

گلوبلائزیشن (عالمگیریت) مجموعی طور پر ریورس گیئر میں منتقل ہو گئی ہے۔ آج کی دنیا میں مسابقت اور سیکورٹی کی بہت زیادہ ضرورت واضح طور پر غالب آ چکی ہے۔ عالمی سطح پر، خاص طور پر چین کی جانب سرمایہ کاری کا بہاؤ کم ہے اور جغرافیائی سیاسی دشمنی کی شدت نے اس یقین کو بھی اب دفن کر دیا ہے کہ مارکیٹ سے چلنے والی عالمگیریت منافع کی منصفانہ تقسیم کا باعث بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ریاستیں ''افادیت سے زیادہ ابھرنے کی قوت اور حفاظت'' کو ترجیح دے رہی ہیں۔

پچھلے چند سالوں کی ڈرامائی سیاسی تبدیلیاں بھی اس کو ظاہر کر رہی ہیں جسے رپورٹ نے ''میکرو اکنامک حقیقت'' کا نام دیا ہے۔ اب مغربی سرمائے کے بہاؤ کو چین سے دوسرے شراکت داروں کی جانب موڑا جا رہا ہے۔ میونخ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق، ''تجارتی بہاؤ بھی، جغرافیائی سیاسی خطوط پر تنظیم نو کے عارضی نشانات واضح طور پر دکھ رہے ہیں،'' جو کہ مجموعی طور پر دنیا میں نیٹ ورکنگ کی ایک انتہائی مایوس کن تصویر بھی پیش کرتی ہے۔

اس کے باوجود یورپ اور خاص طور پر جرمنی ایک استثناء کے طور پر ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''جرمن کمپنیاں اب بھی چین میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور برلن حکومت کے عزائم کو مسترد کر رہی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سن 2023 کی ''پہلی ششماہی میں چین میں جرمن براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ریکارڈ طور پر بلند ترین سطح پر رہی۔''

رپورٹ میں افریقہ کے ساحل علاقے میں روس کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و رسوخ کا تجزیہ بھی شامل ہے، جس کے مطابق روس اپنا اثر و رسوخ تیزی بڑھا رہا ہے تصویر: Mikhail Metzel/TASS/dpa/picture alliance

البتہ اس دوران جرمن حکومت اب بھی چین کے ساتھ ''ڈی رسکنگ'' (معاشی انحصار کم کرنے) کی اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کا آغاز کووڈ وبائی مرض کے دوران ہوا تھا، جب جرمنی اور چین کے درمیان کی سپلائی چین ٹوٹ گئی تھی۔

روس پر طویل عرصے سے توانائی کے انحصار کے خاتمے نے اس پالیسی کو رفتار بھی بخشی ہے۔ تاہم، یہ ابھی تک ٹھوس اعداد و شمار میں ظاہر نہیں ہو پائی ہے۔

ساحل کا علاقہ: ہر بغاوت کے بعد مزید تشدد

اس رپورٹ میں افریقہ کے ساحل علاقے میں روس کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و رسوخ کا تجزیہ بھی شامل ہے۔ سن 2023 میں نائیجر کے فوجی جنتا کے ذریعہ فرانسیسی فوجیوں کو نکال باہر کرنا اس خطے میں فرانس کی کم ہوتی دلچسپی کی ایک مثال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روس ساحل ممالک کو یورپ اور امریکہ سے پوری طرح سے الگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رواں برس کی میونخ سکیورٹی رپورٹ کے مصنفین نے اس علاقے کی مایوس کن صورتحال پیش کی ہے۔ ''علاقے کے لوگ امن اور جمہوری پیش رفت کا موقع کھوتے جا رہے ہیں، کیونکہ سن 2020 کے بعد سے ہر بغاوت کے بعد تشدد میں مزید اضافہ ہوتا رہا ہے۔

یہ رپورٹ دنیا بھر میں سائبر حملوں سے ہونے والے خطرے اور مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی کے منفی نتائج بھی ظاہر کرتی ہے۔

تجزیہ کار دعویٰ کر رہے ہیں کہ ''ایک وقت تھا کہ جو عالمگیریت باہمی طور پر فائدہ مندی اور تکنیکی ترقی کی محرک تھی، اب وہ جغرافیائی سیاسی غلبہ کی دوڑ بن کر رہ گئی ہے۔'' اس کی تائید میونخ سکیورٹی انڈیکس کے سروے کے نتائج سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق امریکہ میں جواب دہندگان نے اس خطرے کو خاص طور پر زیادہ بتایا جبکہ اس کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے۔

مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ لوگ ڈیجیٹل دنیا میں غلط معلومات کی مہمات سے خوفزدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

ص ز / ج ا (فرانک ہوفمین)

میونخ سکیورٹی کانفرنس، عالمی رہنماؤں کی جرمنی آمد

01:17

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں