مہاجرت سے کامیاب فوٹوگرافر بننے کا سفر
28 اگست 2020عراق سے تعلق رکھنے والا تارک وطن رائیسان حمید پہلی نظر میں ایک خاموش طبع نوجوان دکھائی دیتا ہے۔ اس کی کامیابی کے پیچھے مشکلات اور ہمت کی ایک مکمل داستان پوشیدہ ہے۔ انہی مشکلات سے نکل کر حمید کو لائپزگ یونیورسٹی برائے گرافکس اور بُک آرٹ (HGB) میں سن 2016 میں داخلہ دیا گیا تھا۔ اس کی کھینچی گئی تصاویر کی نمائشوں کا سلسلہ لائپزگ کے علاوہ کئی اور شہروں تک پہنچ چکا ہے۔
موریطانیہ میں کشتی ڈوب گئی، 57 تارکین وطن ہلاک
روہنگیا مہاجرین کے کیمپ: عسکریت پسند پاؤں جمانے کی کوشش میں
چار برس قبل یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد ڈی ڈبلیو کے نمائندے نے اس سے ملاقات کی تھی۔ اُسی دن لائپزگ یونیورسٹی برائے گرافکس اور بُک آرٹ میں 'اکیڈمی برائے ٹرانس کلچرل ایکسچینج‘ کا بھی افتتاح ہوا تھا۔ اسی اکیڈمی میں اعلیٰ تعلیم کا ایک خصوصی دو سالہ کورس شروع کیا گیا تھا۔
اس کورس کی افتتاحی تقریب میں زندگی کے سبھی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے۔ اس دن کو یاد کر کے رائیسان حمید کا کہنا ہے کہ اُس دن وہ بہت نروس تھا کیونکہ ایک سال قبل ہی وہ جرمنی پہنچا تھا اور زبان سے شناسائی بھی معمولی سی تھی۔ حمید کے مطابق سبھی ان کو دیکھ رہے تھے کہ آیا یہ تعلیم کے میدان میں کامیاب ہو سکیں گے۔
اکیڈمی میں داخلے کے وقت رائیسان حمید بیس اور تیس برس کے درمیان تھا اور سیدھی سادی زندگی سے نکل کر وہ ایک مشہور آرٹ اسکول پہنچ گیا تھا۔ اس کی مہاجرت کا سفر موصل سے شروع ہوا تھا، جب داعش (اسلامک اسٹیٹ) نے شہر پر قبضہ کیا تو اُسے اور اس کے خاندان کو جبراً شہر بدری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ داعش ویسے بھی جمالیاتی فنون کی شدید مخالف تھی۔ موصل سمیت تمام زیر قبضہ علاقوں جمالیاتی فن یا آرٹ جاننے والوں کو چُن چُن کر گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے کے علاوہ کئی ایک کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جہادیوں کی آمد کے وقت وہ موصل میں فوٹوگرافی کے ساتھ ساتھ مختلف میڈیا اداروں کے لیے جزوقتی کیمرہ مین کی بھی ڈیوٹی دیتا تھا۔ موصل پر جہادی تنظیم کے قبضے کے بعد وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اُس کے ایک دوست کو پھانسی دے دی گئی اور وہ اپنا شہر جلتا ہوا چھوڑ کر کسی اور جانب روانہ ہو گیا۔
رائیسان حمید اپنے خاندان کو چھوڑ کر ایک بھری ہوئی کشتی میں ترکی سے یونان کو روانہ ہو گیا۔ یورپی ملک یونان پہنچنے کے چند ہفتوں بعد وہ بلقان رُوٹ سے گزرتا ہوا شمالی جرمنی کے قصبے اوہشلاگ میں داخل ہو گیا۔ یہ قصبہ جرمن ریاست شلیسویگ ہولشٹائن میں واقع ہے۔ ابتدائی مشکلات کے بعد اوہشلاگ کی ایک خاتون نے اس کی مدد کرنا شروع کر دی اور جرمن زبان کی تعلیم بھی دینا شروع کر دی۔ حمید جرمن قصبے اوہشلاگ کی خاتون کا احترام ایک ماں کی طرح کرتا ہے۔
اسی عورت کی مدد سے اس کی رجسٹریشن مکمل ہوئی۔ حمید کو اس نے بھی اعتماد دیا کہ اس عورت نے اس کی کہانی سنی اور یقین بھی کیا۔ اوہشلاگ میں لوگوں کے ساتھ روابط سے اس کو جرمن زبان جاننے اور سیکھنے میں ابتدائی مدد ملی اور لائپزگ پہنچنے پر اُس کی زبان کی ابتدائی سمجھ بوجھ سے دوستوں میں اضافہ ہوا۔
اس دوران عراقی تارک وطن کو نسلی تعصب کا بھی سامنا کرنا پڑا اور پبلک ٹرانسپورٹ پر مقامی باشندوں کی گالیاں بھی سننا پڑیں۔ لائپزگ میں اکیڈمی میں داخلہ لینے پر پہلے اس نے دو سالہ زبان سہکھنے کا کورس مکمل کیا اور پھر آرٹ اکیڈمی میں بقیہ تعلیم کا سلسلہ جاری شروع کیا۔
سن 2018 میں وہ فوٹوگرافی کا اسٹوڈنٹ بن چکا تھا۔ اس کی مہارت کا جلد ہی سب کا ادراک ہو گیا۔ اس کی بنائی ہوئی تصاویر کی نمائشیں لائپزگ کے علاوہ برلن اور راٹرڈیم کے ساتھ ساتھ خلیجی شہروں مسقط، دبئی اور شارجہ میں بھی ہو چکی ہیں۔ حمید کو بہت زیادہ خوشی بون شہر کے 'کُنسٹ ہالے‘ میں تصاویر کی نمائش سے ہوئی ہے۔ اس بڑے میوزیم میں اس کی فوٹوگرافس کو نصب ہونے سے اس کو فخر محسوس ہوا ہے۔
نادر السراس (ع ح، ع ا)