افغانستان سے لوگ طالبان کے خوف کی وجہ سے فرار ہونے کی کوشش میں ہیں یا یہ اقتصادی مہاجرت ہے؟ اس بارے میں حقائق جاننے کی خاطر ان دونوں عوامل کا تجزیہ ناگزیر ہے۔ دراصل خوف خوشحال زندگی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے افغانستان اور پاکستان جیسے ملکوں میں ریاستی پالیسیاں اور خوشحال معاشرہ دو الگ الگ باتیں تصور کی جاتی ہیں۔ جبر کے شکار افراد اگر بولتے ہیں تو انہیں غدار اور قومی مفادات کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔
'اچھے مستقبل یا معاشی و معاشرتی خوشحالی کے لیے لوگ مغربی ممالک جانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں‘۔ یہ وہ بیانیہ ہے، جسے دیگر ترقی پذیر خطوں کی طرح جنوب ایشیائی ممالک میں بھی ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔ ماضی میں پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بھی ایسا ہی کچھ کہا تھا۔ یاد ہے آپ کو؟ ہاں بالکل وہی بیان، جو انہوں نے مختاراں مائی کے بارے میں رائے دیتے ہوئے دیا تھا۔
مشرف نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا تھا کہ ''پاکستان میں ریپ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، ریپ کروا لو دولت و شہرت کے ساتھ کینیڈا کا ویزہ بھی مل جائے گا‘‘۔ یقینی طور پر انہیں علم نہیں کہ اس جرم کا شکار بننے والی خواتین پر کیا بیتتی ہے۔ پاکستان میں کچھ سیاستدان بھی 'وطن عزیز‘ کی عالمی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کے بارے میں ایسے بیان دیتے رہتے ہیں۔ یوں بنتا ہے قومی بیانیہ۔
اور اب تو بہت سے لوگ دل سے اس بات پر یقین کرنے لگے ہیں لیکن اس تیقن کے باوجود کچھ موقع ملنے پر مغرب تو دور کی بات ہے بلکہ کسی بھی بیرون ملک سیٹل ہونے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ انہیں دل سے پتا ہے کہ معاملات اتنے سیدھے نہیں۔
اور اب اگر طالبان جنگجوؤں کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی ایسا ہی بیان دے دیا تو ہنگامہ کیسا؟ اس گروہ کی پرتشدد کارروائیوں کی کہانیاں کس کو معلوم نہیں؟ اگر کوئی افغان طالبان کے انتہائی سخت رویوں سے ناواقف ہے تو اسے پاکستان تحریک طالبان کے بارے میں کچھ تو علم ضرور ہو گا۔
مذہب کے نام پر حاصل کی گئی طاقت انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے، اس کی مثالیں موجود ہیں۔ حضرت انسان کو صرف اس بارے میں سوچنا چاہیے، صرف جذبات کی رو میں بہہ کر کہی سنی پر یقین نہیں کر لینا چاہیے۔
ایک دہائی سے زائد عرصے تک یورپ میں قیام کے دوران مجھے ایسے کئی مہاجرین اور تارکین وطن بھی ملے، جو صرف اور صرف اقتصادی مہاجرت کر کے یورپی ممالک تک پہنچے۔ ان سے گفتگو میں مجھے اندازہ ہوا کہ 'وطن عزیز‘ میں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن اقتصادی حالات ٹھیک نہیں۔
ہیں بھائی؟ اقتصادی حالات ٹھیک نہیں لیکن باقی سب کچھ ٹھیک ہے؟ عجیب بات معلوم نہیں ہوتی یہ؟ ان کو بھی میں نے یہی کہتے سنا کہ یہ مہاجرین اپنے ملکوں کا نام بدنام کر رہے ہیں ورنہ حالات اتنے برے بھی نہیں۔
کسی مسئلے کے بارے میں عمومی بیان نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ میں ذاتی طور پر ایسے پاکستانی اور افغانوں کو بھی جانتا ہوں، جنہیں ان کے ممالک میں حقیقی خطرات لاحق تھے اور اگر وہ ہجرت نا کرتے تو ان کی جان کو بھی خطرات تھے۔
لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ کون کس محرک کے تحت مہاجرت اختیار کر رہا ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ مسئلہ تو ہے نا؟ اسے کون حل کرے گا؟ بیس سالہ افغان جنگ میں امریکی اتحادی افواج کی ناکامی پر بھی کافی بحث ہو گئی۔ الزام تو کسی پر بھی عائد کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں ہمیں اپنے کردار پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی۔
پرکھا جائے تو خوشحال زندگی و تابناک مستقبل دراصل ریاستی پالیسیوں کی بدولت ہی ممکن ہیں۔ منافقانہ رویوں اور دوہری شخصیت کے حامل افراد والے معاشروں میں بہتر زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہے۔
صرف خلوص دل سے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، یقین جانیے بہت سے معاملات خود ہی درست ہو جائیں گے۔ مذہب اہم تاہم ذاتی معاملہ ہے۔ آج کل کے سرمایہ دارانہ نظام میں خوشحال زندگی کی خاطر گلوبل ویلج کا حصہ بننا ہو گا۔
کس ملک کے کتنے شہری بیرون ملک آباد ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق سن 2020 تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 272 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: AFP
1۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز تک قریب ایک کروڑ اسی لاکھ (18 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ زیادہ تر بھارتی تارکین وطن امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ہیں۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
2۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو، قریب ایک کروڑ بیس لاکھ (12 ملین) بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی 90 فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jaramillo Castro
3۔ چین
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2019 تک ایک کروڑ دس لاکھ (11 ملین) سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چین تیسرے نمبر پر ہے۔ چینی تارکین وطن کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا میں آباد ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد 44 لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. J. Brown
4۔ روس
چوتھے نمبر پر روس ہے جس کے ایک کروڑ (10.5 ملین) سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ روسی تارکین وطن جرمنی، امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ سابق سوویت ریاستوں میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Zentrum Gleiche Kinder
5۔ شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے 80 لاکھ شہری دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں 26 ویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شامی مہاجرین کی اکثریت ترکی، اردن اور لبنان جیسے پڑوسی ملکوں میں ہے تاہم جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں بھی شامی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
6۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کی تیار کردہ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق قریب 80 لاکھ بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ بنگالی شہری بھارت اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔
تصویر: dapd
7۔ پاکستان
70 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک، برطانیہ اور امریکا میں موجود ہیں۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد سے پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Iftikhar Ali
8۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائنی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے آغاز تک چھ ملین یوکرائنی شہری بیرون ملک آباد تھے۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
9۔ فلپائن
57 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائنی شہریوں کی تعداد 30 لاکھ تھی۔ گزشتہ 17 برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائنی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
10۔ افغانستان
افغانستان 50 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں دسویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک 22 لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔