بلغاریہ کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی سیاستدان انیلیا ولیوَوا کو مہاجرین کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے جرم میں سزا سنا دی گئی ہے۔ ان کی پارٹی مہاجرین کی ملک آمد کی سخت مخالف ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بلغاریہ کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک کی الٹرا نیشلسٹ پارٹی ’نیشنل فرنٹ فار سالویشن آف بلغاریہ‘ (این ایف ایس بی) سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاستدان انیلیا ولیوَوا کو معطل سزا سنائی ہے۔ انہیں جولائی میں حراست میں لیا گیا تھا۔ الزام عائد کیا گیا تھا کہ مہاجریں کی ملک آمد کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹی کی اس رکن نے دو شامی اور تین عراقیوں کو غیر قانونی طور پر بلغاریہ لانے کی کوشش کی تھی۔
جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا تو وہ دو کاروں کے ایک قافلے میں مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ان پانچ مہاجرین کو ملک میں لا چکی تھیں۔ تاہم انہیں ملکی سرحدوں میں داخل ہونے کے بعد حراست میں لے لیا گیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ یہ مہاجرین ترکی سے بلغاریہ لائے گئے تھے۔ بلغاریہ کے شہر پلووَدیف کی ایک عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ نے مہاجرین کو غیر قانونی طور پر سربیا سے مغربی یورپ لانے کی کوشش کی۔
مقامی میڈیا کے مطابق انیلیا ولیوَوا اور دیگر پانچ مجرمان کو اس مقدمے میں قصوروار قرار دیتے ہوئے تین سال کی معطل سزائے قید کے علاوہ پانچ پانچ ہزار یورو کا جرمانہ بھی عائدکیا گیا ہے۔
اس کیس کے منظر عام پر آنے کے بعد انیلیا ولیوَوا نے اپنی سیاسی پارٹی کے ایک اہم عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ نیشنل فرنٹ فار سالویشن آف بلغاریہ‘ اس وقت حکمران پارٹی کی اہم اتحادی سیاسی جماعت ہے۔
مہاجرین کے حالیہ بحران کے نتیجے میں یورپ میں لاکھوں مہاجرین شورش زدہ اور تنازعات کا شکار علاقوں سے فرار ہو کر یورپ پہنچ چکے ہیں۔ اس صورتحال میں کئی یورپی ممالک کی عوامیت پسند سیاسی پارٹیوں نے مہاجرت مخالف بیانیہ اختیار کر لیا ہے۔
ان ممالک میں ہنگری اور پولینڈ میں مہاجرت مخالف جذبات عروج پر دیکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح جرمنی سمیت متعدد مغربی یورپی ممالک میں بھی مہاجرت مخالف سیاسی پارٹیاں عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔
اس کی ایک تازہ مثال جرمنی میں اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی بھی ہے، جس نے چوبیس ستمبر کے وفاقی پارلیمانی انتخابات میں نہ صرف پہلی مرتبہ بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کر لی بلکہ وہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی طاقت بن کر بھی ابھر چکی ہے۔ یہ پارٹی بھی جرمنی میں مہاجرین کی آمد کے خلاف ہے۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔