مہاجرت پر نیا عالمی معاہدہ دنیا کے لیے ’خطرہ’ ہے، ہنگری
19 جولائی 2018
امریکا کے ساتھ ساتھ اب ہنگری نے بھی عالمی سطح پر مہاجرت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عالمی ادارے کے باقی تمام رکن ممالک نے اس معاہدے پر دسمبر میں دستخط کیے جانے کی منظوری دے دی ہے۔
اشتہار
ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سیارتو نے گلوبل مائیگریشن پر اقوام متحدہ کے نئے متفقہ معاہدے کو ’دنیا کے لیے خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ اُن کے ملک کے مفادات کے خلاف ہے۔
محفوظ، منظم اور باقاعدہ مہاجرت کے اس معاہدے کی دستاویز تیار ہونے میں اٹھارہ ماہ کا وقت لگا اور امریکا کے علاوہ عالمی ادارے کے ایک سو اکیانوے رکن ممالک نے گزشتہ جمعے اس کی منظوری دی تھی۔
امریکا اس معاہدے سے گزشتہ برس ہی یہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا تھا کہ یہ معاہدہ امریکی امیگریشن اور مہاجرین کے حوالے سے پالیسیوں سے متصادم ہے۔
اقوام متحدہ کے اس معاہدے کا مقصد مہاجرت کے عمل کو منظم بنانے کے لیے ایک عالمی فریم ورک کا قیام ہے۔ اس معاہدے میں یہ شق بھی شامل کی گئی ہے مہاجرت کے مسئلے کا سامنا کرنے والے تمام فریق ممالک مشترکہ طور پر اس مسئلے کا حل تلاش کریں اور یہ کہ کوئی بھی ممبر ملک مہاجرت کے موضوع پر تنہا فیصلہ نہیں کر سکتا۔
بوڈا پیسٹ میں ملکی کابینہ کے اجلاس کے بعد ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سیارتو نے کہا،’’ یہ ایگریمنٹ ہنگری کے سلامتی اور مفادات کے خلاف ہے اور دنیا کے لیے اس لحاظ سے خطرہ ہے کہ اس سے لاکھوں افراد مہاجرت کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‘‘
سیارتو کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا یہ اقدام ’’ شدید متعصبانہ اور ترک وطن کے عمل کو سہولت فراہم کرنے والا ‘‘ ہے۔
ہنگری اس معاہدے پر دستخط ہونے کی تقریب میں شرکت نہیں کرے گا جو رواں برس دسمبر میں مراکش میں منعقد ہو گی۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے مہاجرین اور ترک وطن کے خلاف سخت پالیسی بنا رکھی ہے۔
اوربان یورپی یونین کی جانب سے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ حکمت عملی قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں مہاجرین کی کوٹے کے مطابق تقسیم کے بھی سخت خلاف ہیں۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔