مہاجرت کی پالیسی پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور وزیرداخلہ ہورسٹ زیہوفر کے درمیان اختلافات میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ اس تناظر میں ان دونوں رہنماؤں کی جماعتیں بالخصوص اس معاملے پر اپنی اپنی راہیں الگ کر سکتی ہیں۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور وفاقی وزیرداخلہ ہورسٹ زیہوفر کے درمیان مہاجرین سے متعلق پالیسیوں پر اخلافات کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات ناکام رہے ہیں۔ زیہوفر سخت سرحدی چیکنگ کے حق میں ہیں، جب کہ میرکل یورپی یونین کی سطح پر ایک حکمتِ عملی چاہتی ہیں۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
اسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ باویریا میں برسر اقتدار کرسچن سوشل یونین چانسلر میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے ساتھ پارلیمانی اتحاد ختم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ باویریا صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر سیاست دان نے بتایا کہ یہ دونوں جماعتیں ’علیحدہ ہونے‘ سے دور نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ مہاجرت کے معاملے پر چانسلر میرکل اور باویریا صوبے سے تعلق رکھنے والے ان کے اتحادیوں کے درمیان اختلافات شدید ہیں۔
اس موضوع پر گزشتہ شب چانسلر میرکل، وزیرداخلہ زیہوفر، جنوبی صوبے باویریا کے وزیراعلیٰ مارکُس زیوڈر، ہیسے صوبے کے وزیراعلیٰ فولکر بوفیئر اور چانسلری کے سربراہ ہیلگے براؤن کے درمیان بات چیت بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئی۔
یہ میٹنگ جمعرات کو میرکل اور مختلف جرمن صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے درمیان ملاقات سے قبل منعقد کی گئی تھی، کیوں کہ اس اجلاس میں مہاجرت کا موضوع کلیدی ہے۔ جمعرات کی صبح وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں (بنڈس ٹاگ) کا اجلاس بھی اسی تناظر میں روکنا پڑا، تاکہ مختلف جماعتیں اپنے اپنے پارلیمانی گروپ کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کر سکیں۔
رواں ہفتے کے آغاز پر زیہوفر نے ’مائیگریشن ماسٹر پلان‘ کے نام سے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا، جسے منگل کو پیش کیا جانا تھا، تاہم چانسلر دفتر کی جانب سے اس منصوبے پر اعتراضات کی وجہ سے اسے پیش نہیں کیا گیا تھا۔
زیہوفر کا مطالبہ ہے کہ باویریا جیسے سرحدی صوبوں کو سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کرنے کا اختیار ہونا چاہیے، تاہم چانسلر انگیلا میرکل اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ زیہوفر کا تعلق باویریا میں کرسچن سوشل یونین جماعت CSU سے ہے، جو چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین CDU کی سسٹر پارٹی ہے اور زیہوفر ماضی میں بھی چانسلر میرکل کی مہاجرین دوست پالیسی پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ زیہوفر کا مطالبہ ہے کہ کسی دوسرے یورپی ملک میں پہلے سے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے والے افراد کی درخواستوں پر فیصلے کا اختیار صوبوں ہی کو تفویض کر دیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب میرکل کا کہنا ہے کہ جرمنی کو اس صورت میں یک طرفہ اقدامات کرنے کی بجائے یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا چاہیے، جو پوری یورپی یونین پر لاگو ہو۔
یورپ کے پرشکوہ قلعے اور محلات
قرون وسطیٰ کے دور میں مختلف یورپی شہر قلعہ بند ہوتے تھے۔ شہروں کے گرد بہنے والے دریاؤں کے پل علیحدہ کیے جا سکتے تھے اور شہروں کے گردا گرد بلند دیواریں بھی تعمیر کی جاتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M.Cardy
برطانوی ٹِن ٹاگل کا قلعہ
کسی دور کے اِس عظیم الشان قلعے کی وسیع عمارت کی بہت زیادہ باقیات اب موجود نہیں ہیں۔ برطانوی ساحلی علاقے کورنوال کی ساحل پر اِس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اس قلعے کی باقیات کو دیکھنے کا بہترین وقت طلوع آفتاب یا غروب آفتاب بیان کیا جاتا ہے کیونکہ ان اوقات میں سمندری ہوا قلعے کھنڈر سے سیٹیاں بجاتی گزرتی ہے۔ اس قلعے کی تعمیر برطانوہی بادشاہ آرتھر کی سوچ کا نتیجہ تھی۔
تصویر: picture alliance/A.Woolfitt
برطانیہ کے شہر لندن کا ٹاور
یہ قلعہ عام طور پر لندن ٹاور کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس قلعے کی مختلف ادوار میں مختلف شناختیں رہی ہیں۔ کبھی یہ شاہی محل بنا تو کبھی اسلحے کا گودام بنا دیا گیا۔ کبھی جنگی جانوروں کا ٹھکانہ بنایا گیا تو کبھی قید خانے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ یہ تقریباً ایک ہزار برس قبل تعمیر کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
اٹلی کا مقدس فرشتے کا محل
یہ قلعہ پوپ کلیمنٹ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ روم سے فرار ہو کر سن 1527 میں اس قلعے میں پناہ گزین ہوئے تھے کیونکہ مقدس رومی سطنت کے فوجیوں نے روم شہر کو تاراج کر دیا تھا۔ اس قلعے کی باقیات آج بھی دریائے ٹیبر کے کنارے واقع ہیں۔ اس کی تعمیر کی وجہ یہ ہے کہ یہ رومی سلطنت کے بادشاہ ہاڈریان کے مزار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ہاڈریان 138عیسوی میں فوت ہوا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M.Laporta
رومانیہ کا قلعہ نما والیا ویلور چرچ
یہ انتہائی محفوظ در و دیوار کا حامل گرجا گھر چودہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اب یہ یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کیا جا چکا ہے۔ برس ہا برس تک حملہ آوروں کی چڑھائی کے دوران قریبی لوگ اس قلعہ نما گرجا گھر میں پناہ لیا کرتے تھے۔ اس کی عمارت پتھروں سے تعمیر شدہ ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
فرانس کا قلعہ فلیکنسٹائن
شمال مشرقی فرانسیسی علاقے السیس کے فلیکنسٹائن خاندان کا یہ قدیمی خاندانی قلعہ ہے۔ یہ جرمنی کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ قرون وسطییٰ میں اس قلعے کو ایک پتھریلی چٹان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے سے قریبی علاقے کا پرلطف نظارہ دیکھنے والے کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Dumont
چیک جمہوریہ کا لوکیٹ قلعہ
لیجنڈری جرمن شاعر ژوہان وولفگانگ فان گوئٹے اس قلعے کو کم از کم کا دس مرتبہ دیکھنے گئے تھے۔ 28 اگست سن 1823 کو اپنی چوہترویں سالگرہ بھی اسے پروقار قلعے میں منائی تھی۔ اس سالگرہ کی تقریب میں اُلریکے نامی نوجوان عورت اور اُس کا خاندان بھی شامل تھا، جس سے ژوہان وولفگانگ فان گوئٹے شادی کرنا چاہتے تھے۔ اُلریکے نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اس محبت پر اُن کی لکھی ہوئی نظم Marienbad Elegy ایک شاہکار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
جرمنی کا ایلٹس محل
ایلٹس قلعے کی ابتدائی تعمیر نویں صدی کی ہے۔ ستر میٹر بلند چٹان پر اس قلعے کی تعمیر کی گئی۔ یہ دریائے موسل کے کنارے پر واقع ہے۔ اس قلعے کی ملکیت ایلٹس خاندان کے پلس ہے اس قلعے کا طرز تعمیر انتہائی پروقار ہے۔
تصویر: picture alliance/M. Norz
بُرگ ہاؤزن قلعہ، جرمنی
جرمن علاقے باویریا کے جنوبی کنارے پر واقع یہ قلعہ ایک ہزار میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ دنیا میں اتنے بڑے علاقے پر پھیلا ہوا سب سے بڑا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر بارہویں صدی میں کی گئی تھی۔ اس پر برسوں وٹلز باخ خاندان کا کنٹرول رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
پولینڈ کا واویل محل
واویل محل پولینڈ کے شہر کاراکاؤ کے قریب سے گزرنے والے دریا وسٹولا کے کنارے پر واقع ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ کاراکاؤ برسوں پولستانی بادشاہت کا صدرمقام رہا تھا۔ اس قلعے کا اولین ڈھانچہ دسویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ قلعہ کو پولش تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
وارٹبرگ کاسل، جرمنی
جرمن علاقے میرزربرگ کے پادری برونو نے سن 1080 میں اس قلعے کا احوال اپنی یاداشتوں میں بیان کیا تھا۔ اسی قلعے میں سن 1521 میں مارٹن لوتھر نے پناہ لی تھی اور یہیں پر قیام کے دوران انہوں نے مقدس انجیل کا یونانی سے جرمنی زبان ترجمہ مکمل کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Chromorange/ M. Wirth
ہوہنسولرن محل، جرمنی
ہوہنسولرن قلعہ 855 میٹر کی بلندی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ سوابی الپس کی ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اس کو ہوہنسولرن خاندان کا قدیمی شاہی گھر قرار دیا جاتا تھا۔ اسی خاندان نے پرشیا پر سن 1525 سے سن 1818 تک حکومت کی تھی۔ یہ قلعہ یورپ کے پرشکوہ قلعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس قلعے میں شاہی دور کی یادگاریں خاص طور پر سیاحوں کی دلچسپی کی حامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
11 تصاویر1 | 11
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق میرکل نے اس سلسلے میں پیش کش کی ہے کہ جرمنی مہاجرین کے بحران سے شدید متاثر ممالک مثلا یونان اور اٹلی کے ساتھ معاہدے کر سکتا ہے۔ باویریا کے وزیراعلیٰ زیوڈر نے تاہم جمعرات کی صبح صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ جرمنی کو اس سلسلے میں تیز رفتاری سے اقدامات اٹھا کر ایک ’مثال قائم کرنا‘ چاہیے اور یورپی یونین کی سطح پر فیصلے اور حل کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔