سياسی پناہ کے ليے يورپ کا رخ کرنے والوں کو اپنی منزل تک پہنچنے کے ليے بھوک، پياس، بھتہ خوری، کرپشن اور موت جيسے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ آخر کيا وجہ ہے کہ تارکين وطن يہ سب خطرات مول لينے کے ليے تيار ہيں؟
اشتہار
گيمبيا، آئيوری کوسٹ، سينيگال ہو يا پھر نائجيريا، غير قانونی تارکين کا يورپ تک کا سفر ’ہسٹلرز‘ سے شروع ہوتا ہے۔ يہ نام ان افراد کے ليے استعمال ہوتا ہے، جو ابتداء ميں خواہشمند افراد سے رقم لے کر اُن کے سفر کا بندوبست کرتے ہيں۔ مہاجرين کے ساتھ دھوکہ دہی کا آغاز تو ان ’ہسٹلرز‘ کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ وہ تارکين وطن کو يورپ کے بارے ميں جھوٹے خواب دکھا کر ان سے رقم وصول کرتے ہيں۔ پناہ گزين عموماً نہ تو سفر کے دوران پيش آنے والی مشکلات سے واقف ہوتے ہيں اور نہ ہی ان حالات سے جن کا انہيں يورپ آمد پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کئی افريقی ممالک ميں سرگرم ’ہسٹلرز‘ مہاجرين سے يورپ تک کے سفر کے ليے تين سو سے پندرہ سو يورو کے درميان معاوضہ طلب کرتے ہيں۔ تاہم اکثر و بيشتر يہ سفر نائجر ميں صحرائے اعظم کے کنارے واقع شہر اگاديز يا پھر ليبيا کے کسی شہر ميں اختتام پذير ہو جاتا ہے۔ نيامے حکومت کی کوششوں کے باوجود نائجر يورپ کی جانب غير قانونی ہجرت کے ليے استعمال ہونے والے روٹ کا اہم حصہ ہے۔
غير قانونی ہجرت در اصل ايک ايسا راستہ ہے جس ميں ہر قدم پر مہاجرين کو دھوکے بازی، تشدد حتیٰ کہ موت تک کا خطرہ رہتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق کئی واقعات ميں تو نائجر آمد سے قبل ہی بے رحم کسٹم و پوليس اہلکار تارکين وطن کو لوٹ ليتے ہيں۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی نے اگاديز سے موصولہ رپورٹوں ميں چند عينی شاہدين کے حوالے سے لکھا ہے کہ برکينا فاسو ميں حالات بالخصوص خراب ہيں اور کئی دفعہ مہاجرين کو اس وقت تک تنگ جيلوں ميں رکھا جاتا ہے، جب تک وہ بھتہ ادا نہ کر ديں۔ پھر جب يہ مہاجرين نائجر پہنچ جاتے ہيں تو کئی گزر گاہوں پر آگے بڑھنے کے ليے انہيں چھوٹے چھوٹے ’کميشن‘ ادا کرنے پڑتے ہيں۔ ايک مقامی بس کمپنی کے ايک اہلکار کے بقول مسافروں اور مہاجرين کو تقسيم کر کے مختلف بسوں ميں روانہ کيا جاتا ہے اور متعلقہ حکام کو آگاہ کر ديا جاتا ہے کہ تارکين وطن کس بس میں سفر کر رہے ہيں تاکہ وہ ان سے رقوم بٹور سکيں۔
اگاديز آمد پر مہاجرين کو اسمگلروں کے ہاسٹلوں ميں رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر ايسے گھروں ميں پانی و بجلی کی سہوليات تک ميسر نہيں ہوتيں۔ اس مقام تک پہنچنے کے بعد کئی مہاجرين کے پاس وہ رقم ختم ہو جاتی ہے، جو وہ يورپ تک پہنچنے کے ليے گھر سے لے کر نکلے تھے۔ پھر انہيں گھر ٹيلی فون کر کے يا دیگر ذرائع سے اس کا بندوبست کرنا پڑتا ہے يا پھر وہ اگاديز کے ہی ہو کر رہ جاتے ہيں۔ جو پناہ گزين رقم کا انتظام کر ليتے ہيں، وہ ’ہسٹلرز‘ کو ادائیگی کر کے بسوں پر سوار ہو جاتے ہيں۔ چند کيسوں ميں روپے کا انتظام کرنے کے ليے عورتوں کو جسم فروشی تک کرنی پڑتی ہے جبکہ مردوں کو بھی مختلف اقسام کے کام کرنے پڑتے ہيں۔
سفر کے اگلے مرحلے ميں مہاجرين کو ٹرکوں پر لاد ديا جاتا ہے۔ پوليس سے بچنے کے ليے سفر عموماً سورج طلوع ہونے سے قبل شروع ہوتا ہے۔ گرمی کی شدت اور دھول مٹی سے بچنے کے ليے مہاجرين کو دستانے، ٹوپی، دھوپ سے بچنے والے چشمے، جيکٹ اور بہت سارا پانی درکار ہوتا ہے۔ ٹرکوں کے قافلوں ميں تين تا پانچ ٹرک ہوتے ہيں۔ ايک اسمگلر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ بارڈر ساڑھے سات سو کلوميٹر دور ہے اور وہاں پہنچنے ميں تين دن لگتے ہيں۔ اس نے مزيد بتايا، ’’گاڑی مسلسل چلتی رہتی ہے، کھانے پينے يا بيت الخلاء استعمال کرنے کے ليے صرف پانچ پانچ منٹ کے وقفے ليے جاتے ہيں۔‘‘ اس اسمگلر کے بقول سفر ميں چور ڈاکوؤں کا خطرہ بھی دوچار رہتا ہے اور پوليس کا بھی۔ ’’اگر ڈاکو پکڑ ليں اور ہماری گاڑی لے جائيں، تو صحرا ميں تنہا ہونا يقينی موت کے برابر ہے۔‘‘ اسی ماہ عورتوں اور بچوں سميت چواليس افراد صحرا ميں ايسے ہی حالات ميں ہلاک ہو گئے تھے۔
ليبيا پہنچنے والے اکثريتی پناہ گزين سفر کے بارے ميں بھيانک کہانياں سناتے ہيں۔ مگر يورپ تک پہنچنے کے خواب کو حقيقت بنانے کے ليے يہ سب کچھ سہنے کے بعد انہيں وسطی بحيرہ روم کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس سال اب تک بحيرہ روم ميں لگ بھگ ڈھائی ہزار تارکين وطن لاپتہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔