کئی ماہ سے جاری بحث و مباحثے کے بعد جرمنی کی مخلوط حکومت ميں شامل اتحادی جماعتوں کے مابين انسداد دہشت گردی اور مہاجرين کے انضمام کے حوالے سے نئے قوانين پر اتفاق رائے قائم ہو گيا ہے۔
اشتہار
نئے مجوزہ جرمن قوانين کے مطابق جرمنی ميں سياسی پناہ حاصل کرنے والے تارکين وطن اگر زبان سيکھنے، ملازمت تلاش کرنے اور معاشرے ميں ضم ہونے کے ليے مناسب اقدامات نہيں کرتے، تو انہيں فراہم کی جانے والی سہوليات ميں کمی کی جا سکتی ہے۔ چانسلر انگيلا ميرکل کی سياسی پارٹی کرسچن ڈيموکريٹک يونين (CDU) اور مخلوط سوشل ڈيموکريٹک پارٹی (SPD) کے مابين يہ اتفاق رائے بدھ اور جمعرات کی درميانی شب قريب سات گھنٹے طويل بحث و مباحثے کے بعد ہوا۔ برلن حکومت کئی ماہ سے ان قوانين کو حتمی شکل دينے کی کوششوں ميں ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کو طے کردہ قوانين ميں انسداد دہشت گردی کے ليے بھی مجوزہ اقدامات شامل ہيں۔
انضمام کے حوالے سے طے پانے والے مجوزہ قوانين کے تحت جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کے ليے متعدد تربيتی پروگراموں کا انتظام کيا جائے گا تاہم ان سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کی سياسی پناہ منسوخ بھی کی جا سکتی ہے۔ چانسلر ميرکل کے بقول جرمن زبان سکھانے کے علاوہ مہاجرين کو ايسے کورسز بھی کرائے جائيں گے جن کی مدد سے وہ جرمنی کی روزگار کی منڈی ميں ملازمت کے اہل ہو سکيں۔ نئے مجوزہ قوانين کے تحت وفاقی فنڈز کی مدد سے پناہ گزينوں کے ليے ملازمت کے تقريباً ايک لاکھ مواقع پيدا کيے جائيں گے۔ ملک بدری کے ليے مستحق قرار ديے جانے والے تارکين وطن کی ملک بدری پر اس وقت تک عملدرآمد نہيں کيا جائے گا، جب تک ان کا تربيتی پروگرام ختم نہيں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ، جو مہاجرين حکام کی جانب سے مہيا کردہ رہائش ترک کريں گے، انہيں نتائج بھگتنا پڑيں گے تاہم يہ واضح نہيں کہ يہ نتائج کيا ہوں گے۔ ميرکل نے کہا کہ نئے قوانين ميں ’ہر کسی کے ليے مواقع بھی ہيں اور ذمہ دارياں بھی‘۔ مجوزہ قوانين کی ملکی کابينہ سے منظوری چوبيس مئی کو ممکن ہے۔
انگيلا ميرکل نے اس موقع پر دارالحکومت برلن ميں کہا کہ يورپ کو درپيش مہاجرين کے اس تاريخی بحران ميں جرمنی کو دو چيلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا چيلنج يورپی اتحاديوں کے ساتھ مل کر تارکين وطن کی آمد کو منظم بنانا ہے اور اس سلسلے ميں پيش رفت واضح ہے۔ ذرائع ابلاغ سے بات چيت کرتے ہوئے ميرکل نے کہا کہ دوسرا چيلنج يہاں پہنچنے والے پناہ گزينوں کا اندراج اور پھر ان کا کامياب انضمام ہے۔ انہوں نے کہا، ’’انضمام کے حوالے سے ہمارے پاس قومی سطح کا باقاعدہ قانون ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی ميں ايسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے اور يہ ايک اہم اقدام ہے۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ سن 1960 کی دہائی کے آغاز ميں جرمنی نے ترک شہريوں کو ’گيسٹ ورکرز‘ يعنی مہمان ملازمين کے طور پر بلايا تھا۔ اس اقدام کا مقصد معاشی ترقی تھا۔ تاہم حکام ان ہزارہا تارکين وطن اور پھر ان کی آئندہ نسلوں کو انضمام يا شہريت کی جانب درست راہ دينے ميں ناکام رہے تھے۔
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانے والی ڈيل کے تحت اب تک 326 مہاجرين کو ملک بدر کيا جا چکا ہے، جن ميں 201 پاکستانی ہيں۔ يہ پناہ گزين بھاری رقوم خرچ کر کے يونان پہنچے ہيں اور ترکی ملک بدری کا خوف انہيں کھائے جا رہا ہے۔
تصویر: Jodi Hilton
ليسبوس پر ’غير قانونی‘ قيام
مقامی ميئر کے پريس آفيسر ماريو آندروئٹس کے مطابق مہاجرين نے وہاں جو کيمپ لگا رکھا ہے، وہ مکمل طور پر غير قانونی ہے۔ ان کے بقول وہ اس مسئلے کا پر امن انداز ميں حل نکالنے کی کوشش ميں ہيں تاہم اگر مہاجرين نے کيمپ نہيں چھوڑا تو پوليس کو طلب کيا جا سکتا ہے۔ يہ ليسبوس کے اس ايک کيمپ کی بات کر رہے ہيں، جہاں کئی پاکستانی موجود ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سمندر سے بچائے جانے والے
مائيٹيلين کی بندرگاہ پر يونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے حراست ميں ليے جانے والے تارکين وطن کا ايک گروپ پوليس کی ايک بس پر انتظار کر رہا ہے۔ يہ تصوير رواں ہفتے اس وقت لی گئی تھی، جب يونان نے سياسی پناہ کے ليے غير مستحق سمجھے جانے والوں کی ترکی ملک بدری شروع کردی تھی۔
تصویر: Jodi Hilton
واپسی کا طويل سفر، مستقبل غير واضح
آٹھ اپريل کے روز 202 تارکين وطن کو ملک بدر کيا گيا۔ اس گروپ ميں ايک سو تيس پاکستانی شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر افغان شہری تھے۔ اس کے علاوہ چند بنگلہ ديشی، کانگو کے کچھ شہری، چند ايک بھارتی اور سری لنکن تارکين وطن کو بھی ملک بدر کيا گيا۔
تصویر: Jodi Hilton
بھوک ہڑتال
ليسبوس پر قائم ايک حراستی مرکز موريا کے مہاجر کيمپ ميں پاکستانی تارکين وطن بھوک ہڑتال پر تھے۔ جنگی حالات سے فرار ہونے والا ايک نوجوان بلوچی لڑکا احتجاج کرتے ہوئے ایک کھمبے پر چڑھ گيا تھا اور دھمکی دينے لگا کہ وہ خود کو پھانسی دے دے گا۔ بعد ازاں اس کے ساتھيوں نے اسے سمجھایا اور وہ نیچے اتر آیا۔
تصویر: Jodi Hilton
ايک بے بس باپ
اڑتيس سالہ اعجاز اپنے اہل خانہ کے ليے ذريعہ معاش کا واحد ذريعہ ہیں۔ انہوں نے يورپ تک پہنچنے کے ليے اپنا مکان بيچ ڈالا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ميں بہت غريب آدمی ہوں۔‘‘ اپنے اہل خانہ کو غربت سے چھٹکارہ دلانے کا اعجاز کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گيا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے يورپ ميں مرنا قبول ہے ليکن ترکی جانا نہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
خوف کی زندگی
ايک پاکستانی تارک وطن پوليس سے بھاگ کر ’نو بارڈر کچن کيمپ‘ کی طرف جا رہا ہے۔ مہاجرين کو کيمپوں کے آس پاس ہی رکھا جاتا ہے اور رات کے وقت پوليس انہيں بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے مرکز ميں نہيں جانے ديتی۔
تصویر: Jodi Hilton
مفت کھانا
تارکين وطن کھانے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ نو بارڈر کيمپ ميں يہ مہاجرين سب کچھ مل کر ہی کرتے ہيں۔ اس کيمپ ميں کوئی کسی کا سربراہ نہيں اور سب کو برابر سمجھا جاتا ہے اور فيصلے مشترکہ طور پر مشاورت کے بعد کيے جاتے ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سرد راتيں
پاکستانی تارکين وطن کا ايک گروپ خود کو گرم رکھنے کے ليے آگ لگا کر ہاتھ تاپ رہا ہے۔ ان ميں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ترکی ميں انہيں يرغمال بنا ليا گيا تھا اور تاوان کے بدلے چھوڑا گيا تھا۔ ان ميں ايک پاکستانی حسن بھی ہے، جس نے اپنے خلاف قتل کی متعدد کوششوں کے بعد ملک چھوڑا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی اس کے ليے محفوظ ملک نہيں۔